Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zahra Javed
  4. Mere Ustad Ke Naam

Mere Ustad Ke Naam

میرے استاد کے نام

زندگی میں کئی بار ایسا لمحہ آتا ہے جب دل میں جذبات کا طوفان ہوتا ہے، کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے، مگر زبان خاموش رہتی ہے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں ہوتے، جملے نہیں بن سکتے۔ مگر یہ سچ ہے کہ اکثر وہ جملے ہماری اصل کیفیت کو بیان نہیں کر پاتے۔ شاید اسی لیے اکثر دل کی باتیں دل میں ہی دفن ہو جاتی ہیں۔

ہماری زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی آتے ہیں جو ہماری روزمرہ کی دنیا کا حصہ نہیں ہوتے، مگر دل کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے استاد، رہنما، یا محض کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جس کی موجودگی ہمیں جینے کا حوصلہ دیتی ہے، ہمیں بہتر بننے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہم انہیں ایک عام انسان کی نظر سے نہیں دیکھتے، بلکہ ہماری نگاہ میں وہ ایک عظیم شخصیت ہوتے ہیں۔ ان کی عزت ہمارے دل میں بلاوجہ ہوتی ہے نہ کسی مطلب سے، نہ کسی غرض سے۔

کبھی دل چاہتا ہے کہ ان سے کہہ دیں، "آپ ہمارے محسن ہیں"۔ مگر پھر رک جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ اگر ہم نے اپنے جذبات کا اظہار کیا، تو کہیں وہ ہمیں غلط نہ سمجھ لیں۔ کہیں ہماری خاموش عقیدت کو لالچ یا غرض نہ سمجھ لیا جائے۔ یہی سوچ ہمیں چپ رہنے پر مجبور کرتی ہے۔

یہ خاموشی شاید ایک حفاظتی دیوار ہے۔ مگر کبھی کبھی دل کہتا ہے کہ بتا دو، سچائی چھپانے سے کیا حاصل؟ شایَد وہ سمجھ پائیں کہ ان کی موجودگی ہماری زندگی کے لیے کتنی اہم ہے۔ مگر پھر دل کا وہی پرانا خوف سر اُٹھاتا ہے کہیں وہ ہمیں غلط نہ سمجھ لیں۔

امید پھر بھی باقی رہتی ہے۔ شاید کبھی ایسا دن آئے جب ہم اپنے جذبات کا اظہار کر سکیں۔ جب وہ جان سکیں کہ ان کا ہم پر کتنا گہرا اثر رہا ہے۔ مگر کبھی یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ جب وہ لمحہ آئے گا، تب شاید وہ اہمیت کہیں کھو چکی ہو۔

میرے مینٹور، میرے محسن، میرے استاد رہے ہیں جنہوں نے مجھے میرے ہونے کا احساس دلایا۔

استاد صرف علم نہیں دیتے، وہ روحانی والدین ہوتے ہیں۔ کچھ استاد ایسے ہوتے ہیں جن کی ایک بات، ایک جملہ، زندگی بھر ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ وہ ہمارے اندر کا چھپا ہوا یقین جگا دیتے ہیں۔ انہی کے اعتماد کی بدولت ہم وہ سب کچھ کر جاتے ہیں جو شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو۔

میری زندگی میں بھی ایسے اساتذہ آئے۔ یہ اللہ کا خاص کرم تھا کہ مجھے بچپن سے ہی ان کی محبت اور رہنمائی ملی۔ جن اساتذہ کو میں دل سے سراہتی تھی، ان سے ایک الگ رشتہ بن جاتا تھا عقیدت کا، خلوص کا اور اعتماد کا۔

آج میں ان تمام اساتذہ کا دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں، جن کے یقین نے مجھے خود پر یقین دلایا۔ ان کے کہے ہوئے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں:

"ہاں، تم کر سکتی ہو"۔

"تم کر لو گی"۔

"تم ضرور کرو گی"۔

جب مجھے خود پر یقین نہیں تھا، تب بھی انہیں مجھ پر یقین تھا اور آج ان ہی کا دیا ہوا حوصلہ میری پہچان کا حصہ بن چکا ہے۔

شکریہ۔۔ آپ سب کا۔ ان سب لمحوں کے لیے، جن میں آپ نے مجھ پر یقین کیا — اُس وقت جب میں خود پر بھی یقین نہیں کر پاتی تھی۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan