Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zahra Javed
  4. Main Chor Nahi Hoon, Dadi

Main Chor Nahi Hoon, Dadi

میں چور نہیں ہوں، دادی

کہتے ہیں وہ بہت ایماندار تھا۔ گاؤں والے اُسے سچائی اور کردار کی جیتی جاگتی مثال سمجھتے تھے۔ وہ کم عمر تھا، مگر ذہانت، خلوص اور قربانی میں بڑا تھا۔ دوسروں کا خیال رکھنا اُس کی فطرت تھی اور اپنی بھوک، دکھ اور تھکن، وہ خاموش مسکراہٹ میں چھپا لیتا تھا۔

کئی دن بھوکا رہتا، پھر بھی کسی نے اُس کے ماتھے پر شکن نہ دیکھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لوگ اُس کی عمر نہیں، اُس کا کردار دیکھتے تھے۔

ایک رات علی کو گھر پہنچنے میں دیر ہوگئی۔ عام طور پر اُسے دیر کی پروا نہیں ہوتی تھی، مگر اُس دن وہ کچھ بےچین تھا۔ دل جیسے ڈوبا ہوا ہو۔ گھر پہنچتے ہی اُس نے دروازہ بند کیا۔ پسینے سے بھیگا ہوا چہرہ، آنکھوں میں خوف اور تھکن۔

دیا جلانا چاہا تو ایندھن ختم تھا۔ چارپائی پر اُس کی بوڑھی دادی سو رہی تھیں، جو آہٹ سے جاگ گئیں۔

"علی بیٹا، آج دیر کیوں ہوگئی؟"

"جی دادی، تھوڑا کام تھا"۔ علی نے مختصر جواب دیا۔

دادی نے نرمی سے کہا: "کھانا رکھا ہے، کھا لو اور آرام کرو"۔

"آپ سو جائیں، مجھے تھوڑا کام ہے"۔

علی نے نظریں چُرا کر کہا اور صحن کی جانب بڑھ گیا۔

دادی نے کچھ نہ کہا، آنکھیں موند لیں۔

آدھی رات کو دادی کی آنکھ کھلی، تو علی چارپائی پر موجود نہ تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس گئیں اور جھانک کر دیکھا۔

علی زمین کھود کر کچھ دفن کر رہا تھا۔

وہ حیران ہوئیں، مگر خاموشی سے واپس لیٹ گئیں۔

اگلی صبح گاؤں میں شور مچ گیا۔

کئی گھروں سے پیسے غائب ہو چکے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کوئی باہر سے نہیں آیا تھا۔

پنچایت بُلائی گئی۔ فیصلہ ہوا کہ تمام گھروں کی تلاشی ہو۔

جب علی کے گھر کی باری آئی، کچھ لوگوں نے علی کی حمایت کی: "وہ ایسا نہیں ہو سکتا"۔

"مگر کل میرے گھر وہی آیا تھا۔ صرف یقین نہیں، تسلی بھی چاہیے"۔

علی کا گھر چھانا گیا۔ کچھ نہ ملا۔

لوگ جانے ہی لگے تھے کہ ایک شخص کی نظر صحن کے ایک کونے پر پڑی، وہاں کی مٹی باقی جگہ سے مختلف لگ رہی تھی۔

"یہاں کچھ دفن کیا گیا ہے"۔

مٹی کھودی گئی اور ایک تھیلا برآمد ہوا۔

"یہ میرا تھیلا ہے"۔ ایک بزرگ چلّایا۔

علی نے فوراً کہا، "اس میں صرف کپڑے ہیں۔ براہِ کرم، نہ کھولیں"۔

مگر کسی نے نہ سنی، تھیلا کھولا گیا۔ اندر نوٹوں کی گڈیاں تھیں۔

علی کو گاؤں کے چودھری کے پاس لے جایا گیا۔

"یہ پیسے تم نے چرائے ہیں؟"

علی نے نظریں جھکا کر کہا، "نہیں، میں نے چوری نہیں کی"۔

مگر کسی نے یقین نہ کیا۔

چودھری نے فیصلہ سنایا:

"یہ رقم اُن لوگوں میں تقسیم کر دی جائے جن کی چوری ہوئی ہے اور علی کو آج سے اس گاؤں میں کوئی جگہ نہیں! "

فیصلہ نافذ ہوا۔

علی کو شاید لوگوں کی بےیقینی سہنا آسان ہوتا۔ مگر جب وہ گھر پہنچا اور اُس کی دادی نے اُس سے نظریں چرا لیں، تو جیسے اُس کا دل ٹوٹ گیا۔

وہی دادی، جن کے لیے وہ سب کچھ کر رہا تھا۔

اب وہ بھی اُس پر خاموش تھیں۔

اُس رات علی نے سلام کیا۔ دادی نے کوئی جواب نہ دیا۔

وہ جا کر سو گیا۔

صبح اُٹھا، تو دادی ہمیشہ کی نیند سو چکی تھیں۔

مولوی صاحب کو بلایا، کفن دفن کا انتظام ہوا۔

چند لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔

دادی کو قبر میں اُتار دیا گیا۔

علی وہیں بیٹھ گیا۔

پوری رات قبر سے لپٹ کر روتا رہا۔

"دادی۔۔ میں نے یہ پیسے چوری نہیں کیے۔

میں نے یہ پیسے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر، دن بھر مزدوری کرکے اور راتوں کو جاگ جاگ کر جمع کیے تھے۔

یہ سب آپ کے علاج، دواؤں اور عزت کے لیے تھا۔

میں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔

میں نے بس چھپا دیے تھے، ڈر تھا چوری نہ ہو جائیں۔

آپ نے تو کبھی مجھ سے پوچھا بھی نہیں۔۔

میں چور نہیں ہوں دادی۔۔

میں آپ کا علی ہوں"۔

مگر قبریں کبھی جواب نہیں دیتیں۔

اگلی صبح گاؤں میں سچائی عیاں ہوگئی۔

چوری چودھری کے بیٹے نے کی تھی، وہ نشے کا عادی تھا اور سب کے گھروں میں راشن دینے کے بہانے جاتا تھا۔ وہ جانتا تھا کس کے گھر کیا چھپا ہے۔

اُس نے ہی سب کے پیسے چرائے تھے۔

سب کے چہرے ندامت سے جھک گئے۔

لوگ دوڑے علی کے گھر۔

مگر وہ جا چکا تھا۔

وہ خاموشی سے اپنا سامان لے کر راتوں رات گاؤں چھوڑ گیا تھا۔

سچائی اکثر دیر سے ظاہر ہوتی ہے، مگر جب تک سچ سامنے آتا ہے، کئی دل ٹوٹ چکے ہوتے ہیں، کئی آنکھیں بند ہو چکی ہوتی ہیں۔

شک ہمیشہ سچ کو قتل کرتا ہے اور بعض زخم کبھی نہیں بھرتے۔

Check Also

Pee Ja Ayyam Ki Talkhi

By Syed Mehdi Bukhari