Kya Khudkushi Waqai Zaroori Hai?
کیا خودکشی واقعی ضروری ہے؟
آج دنیا بھر میں تقریباً آٹھ ارب لوگ بستے ہیں۔ ان میں سے ہر سال چھ سے سات لاکھ افراد خودکشی کر لیتے ہیں۔ ان میں ساٹھ سے ستر فیصد تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے، جو پندرہ سے پینتیس سال کی عمر میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہوتے ہیں جو ڈپریشن اور اینزائٹی جیسے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ وہ خاموشی سے اس تکلیف سے لڑتے ہیں اور پھر ایک دن خود کو ختم کرکے سب کچھ ختم کر دینا چاہتے ہیں۔
لیکن کیا خودکشی واقعی اتنی آسان ہوتی ہے؟ کیا کسی بھی انسان کے لیے اپنی جان لے لینا آسان ہو جاتا ہے؟ کیا زندگی سے "آزادی" ہی آخری حل رہ جاتی ہے؟
یقیناً نہیں۔ خود کو ختم کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ آخری راستہ ہوتا ہے۔ مگر آج کے نوجوان سمجھ لیتے ہیں کہ انہیں کوئی نہیں سمجھے گا، اسی لیے وہ اپنی جان دے کر مسائل سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جو سوچ انہیں یہ یقین دلاتی ہے کہ کوئی انہیں نہیں سمجھے گا، کیا وہ ان کے اندر سے آئی ہے؟ یا وہ ماحول، وہ معاشرہ، وہ لوگ، ہم سب۔۔ اس سوچ کے ذمہ دار ہیں؟
کیا آپ کے اردگرد کے لوگ واقعی ویسے ہی ہیں جیسے وہ نظر آتے ہیں؟ کیا ان کے ماتھے کی جھریوں کے پیچھے کوئی ذہنی لڑائی نہیں چھپی؟ کیا کسی کی بگڑتی صحت اس کے اندر جاری جنگ کا عکس نہیں ہو سکتی؟ کیا کسی کی آنکھوں کی چمک، اس کے بجھتے خوابوں کی آخری روشنی تو نہیں؟ ہم دیکھتے ہیں، مگر محسوس نہیں کرتے۔
اور پھر سوال پیدا ہوتا ہے: کیا خودکشی ضروری ہے؟ کیا واقعی آپ اکیلے ہیں اور باقی سب خوش ہیں؟ کیا آپ کی زندگی میں صرف مسائل ہی مسائل ہیں اور کوئی خوشی موجود نہیں؟
اگر آپ غور کریں تو شاید آپ کو دکھائی دے کہ جہاں پریشانی ہے، وہیں آسانی بھی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے"۔
تو پھر کیوں آپ کو صرف اندھیری شام نظر آتی ہے اور اس کے بعد والی صبح نہیں؟ آج جو مسائل آپ کو زندگی سے آزاد ہونے پر مجبور کر رہے ہیں، وہی کل آپ کی طاقت بن سکتے ہیں۔ وہی دنیا جو آج آپ کو نہیں سمجھ رہی، کل آپ کی مثال دے گی، آپ کی ہمت کی، آپ کی ثابت قدمی کی۔
لیکن اگر آپ نے آج کی شام کو اپنی آخری رات سمجھ لیا، تو یاد رکھیں دنیا آپ کو چند دن خبروں میں رکھے گی اور پھر بھول جائے گی اور پھر؟ اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ اپنے رب کو ناراض کر بیٹھیں گے۔ اس رب کو جو آپ سے بے حد محبت کرتا ہے۔ وہ محبت جس کا کوئی پیمانہ نہیں، جس کی مثال بھی ستر ماؤں کی محبت سے دی جاتی ہے اور پھر بھی وہ مثال ادھوری ہے اور جب آپ اس رب کو ناراض کرکے اپنی جان خود لے لیتے ہیں، تو یہ صرف نقصان ہے، ایک ایسا سودا جو انسان اپنی ابدی زندگی کی قیمت پر وقتی سکون کے لیے کرتا ہے۔
یہ سودا کبھی نفع نہیں دے گا۔
جو پریشانی آج آپ کو بوجھ لگ رہی ہے، کوشش تو کریں۔ شاید آپ کے اردگرد کہیں کوئی ایسا انسان موجود ہو جو آپ کو سن سکے۔ ضروری نہیں کہ وہ آپ کا مسئلہ حل کرے، صرف سن لینا ہی بعض اوقات بہت ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب انسان اندر سے ٹوٹا ہوا ہو۔
مانا کہ زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں جب دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ دیا جائے۔ مگر یہ چھوڑ دینا آپ کو آزاد نہیں کرتا۔ یہ ایک ایسی قید میں دھکیل دیتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ تو ایک بار سوچ لیں، کیا آپ کچھ ہمت کرکے اپنی ابدی زندگی بچانا چاہتے ہیں، یا وقتی پریشانیوں کے بدلے اپنی آخرت بھی گنوانا چاہتے ہیں؟
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور کوئی پریشانی ایسی نہیں جس سے نکلا نہ جا سکے۔ اگر آپ خود نہیں نکل سکتے، تو وقت نکال لے گا۔ اگر وقت نہیں، تو کوئی انسان آپ کو سہارا دے گا۔ لیکن سب سے پہلے، سب سے پہلے اللہ ہوتا ہے۔ وہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے، آپ کی ہمت بن کر۔ مگر ہم انسان ہی ہیں جو اسے پہچان نہیں پاتے۔ ہم سمجھتے ہیں خودکشی بہتر ہے، کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں کوئی نہیں سمجھے گا۔
تو آج سن لیں، لوگ آپ کو کبھی مکمل نہیں سمجھیں گے۔ وہ آپ کو اپنی سوچ سے دیکھیں گے اور جب یہ طے ہے کہ لوگ مکمل نہیں سمجھیں گے، تو پھر لوگوں کی سوچ کو اپنے فیصلوں کا مرکز کیوں بنایا جائے؟ آپ اہم ہیں، وہ لوگ نہیں۔
اگر آج آپ کسی ذہنی الجھن میں مبتلا ہیں، تو سب سے پہلے اللہ پر چھوڑ دیں اور کوئی ایک ایسا انسان تلاش کریں جو آپ کو سن سکے اور اگر کوئی نہ ملے، تو خود ایسا انسان بن جائیں جو دوسروں کو سن سکے۔ کیونکہ جو آپ دوسروں کو دیتے ہیں، وہ آپ کو ضرور واپس ملتا ہے۔ اگر آپ کسی کا درد بانٹتے ہیں، تو کوئی آپ کا درد بھی بانٹے گا۔
خدارا، اپنی زندگی کو اتنا سستا نہ بنائیں کہ تھوڑی سی پریشانی اسے ڈبو دے۔ اپنے رب کو ناراض نہ کریں، اسے خود سے اتنا دور نہ لے جائیں کہ اس کی رحمت آپ تک پہنچنے سے رک جائے اور اگر آپ خود اس وقت پریشان نہیں، تو کوشش کریں کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو محسوس کریں۔ اگر آپ کو کوئی چپ لگتا ہے، تو اس پر ہنسنے کے بجائے اس سے نرمی سے بات کریں۔ اسے اپنی موجودگی کا احساس دلائیں۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یقین دلائیں کہ آپ ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں۔
آپ نہیں جانتے کہ آپ کے نرم لہجے میں کہے گئے چند جملے، کسی کے لیے زندگی کا سہارا بن سکتے ہیں۔

