Khamoshi Ka Inam?
خاموشی کا انعام؟
جب ہمارے اپنے وطن پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے تو ہم نے فوراً دنیا کے ہر اس ملک کا ذکر شروع کر دیا جو ہمارے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے، لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ جب وہ ملک جنگ کے شعلوں میں جھلس رہا تھا، تو ہم نے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا حق ادا کیا؟ کیا ہم نے کبھی اُنہیں یہ یقین دلایا کہ ہاں، ہم تمہارے ساتھ ہیں؟ کیا ہم نے انہیں فخر سے یہ کہنے کا موقع دیا کہ ہاں، کوئی ایک ملک تو ہے جو ہمارے شانہ بشانہ کھڑا ہے؟
وہ ملک جو ماضی میں ہمارے مقدس ترین مقامات کی حفاظت کے لیے آگے بڑھا تھا ہم اس کی حفاظت میں کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں، اس ملک کے نوجوان محافظوں نے مکہ مکرمہ جا کر لڑ کر، کعبہ کو دشمنوں کے قبضے سے چھڑایا، آج جب اُس ملک پر قیامت بیت رہی تھی، تو ہم خاموش کیوں تھے؟ جب اُس کے بچے، اُس کی عورتیں، اُس کے بزرگ بے دردی سے شہید کیے جا رہے تھے، تو ہماری زبانیں کیوں گُنگ تھیں؟ کیا آج کی جنگ ہماری اُسی خاموشی کا نتیجہ تو نہیں؟
ہمیں یہ زمین بہت عزیز ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارا وطن ہے، ہم اسے کسی کو چھیننے نہیں دیں گے۔ لیکن جب ہم خود اپنے اعمال سے، اپنی غفلت سے، اس وطن کو کمزور کرتے ہیں، تو کیا تب یہ ہمارا وطن نہیں ہوتا؟ ہم نعرے تو بلند کرتے ہیں، لیکن عمل کے میدان میں کہاں ہیں؟ ہم نے کیا کبھی ایسی کوئی کوشش کی جس سے ہمارے ملک کی عزت بڑھے، اس کی شان میں اضافہ ہو؟ یا ہم نے اُن محرومیوں کو ہی دہراتے رہنے کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے جو کبھی ہم نے خود پیدا کی تھیں؟
آج جب ہمارے مجاہد ہماری حفاظت کے لیے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھے کھڑے ہیں، کیا ہم اپنے کردار سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہم ان کی قربانیوں کے قابل ہیں؟ کیا ہم واقعی اس حفاظت کے مستحق ہیں؟
آیئے! اِن سوالوں کے جواب تلاش کریں اور خود سے، اپنے ضمیر سے، اپنے وطن سے یہ عہد کریں کہ ہم بدلیں گے۔ ہم وہ خاموشی توڑیں گے جو ماضی میں گونجی تھی، تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی "انعام" نہ ملے جو ہماری بےحسی کا نتیجہ ہو۔

