500 Ka Note
پانچ سو کا نوٹ
ایک سادہ سی خواہش۔۔ جو دل سے نکلی اور پوری ہوگئی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں دسویں جماعت میں تھی۔ میری روز کی روٹین کچھ یوں تھی، صبح اسکول اور شام کو ایک اکیڈمی، جو اُس سر کی تھی جن کے بھائی میرے اسکول کے پرنسپل تھے۔ ایک دن اکیڈمی میں سر نے اعلان کیا کہ اگلے ہفتے ریاضی کا ایک ٹیسٹ ہوگا اور جس طالبہ کے اس میں پورے نمبر آئیں گے، اُسے پانچ سو روپے کا انعام دیا جائے گا۔
اب پانچ سو روپے اُس وقت میرے لیے محض ایک نوٹ نہیں تھا، وہ میرے لیے محنت کی پہچان، خوشی کی امید اور پہلی "کامیابی" کا عکس تھا۔ میں نے دل لگا کر تیاری کی۔ ٹیسٹ والے دن ٹیچر (جو ایک خاتون تھیں) نے آرام دہ ماحول میں پیپر لیا اور مجھے لگا کہ میں نے سب درست حل کیا ہے۔ دوستوں کے ساتھ جوابات ڈسکس کیے تو تسلی ہوگئی: سب ٹھیک ہے۔ انعام میرا ہوگا۔ اگلے دن جب ہم اکیڈمی پہنچے تو سب کو دفتر (آفس) بلایا گیا۔ سر نے بتایا کہ پانچ طالبات ایسی ہیں جنہیں پورے نمبر ملے ہیں۔ یہ سن کر دل میں ہلکی سی الجھن ہوئی، کیونکہ ہم تو چھ لڑکیاں تھیں جنہوں نے مل کر سوالات چیک کیے تھے۔ پھر باری باری اُن پانچ لڑکیوں کو انعام ملا، لیکن مجھے نہیں۔
جب میری کاپی ملی تو ایک سوال کو غلط چیک کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ بالکل درست تھا۔ دل دکھا، خاموشی سی طاری ہوگئی۔ خود سے کہا: "اب کیا فائدہ؟ بات ختم، انعام چلا گیا"۔ اُسی لمحے میری ایک قریبی دوست آئی، جسے سب کچھ پتا تھا۔ اُس نے کہا: "تمہارا جواب تو بالکل ٹھیک تھا، چلو جا کر بات کرتے ہیں"۔ میں نے انکار کیا، دل میں سوچا کہ اب بات کرنا بیکار ہے۔ مگر اُس نے کہا: "چلو، میں ساتھ چلتی ہوں"۔
ہم دونوں ٹیچر کے پاس گئے۔ انہوں نے دوبارہ کاپی دیکھی اور فوراً تسلیم کر لیا کہ غلطی ہوگئی ہے۔ انہوں نے مجھے پورے نمبر دے دیے۔ اُس لمحے میرے چہرے پر جو سکون تھا، وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔ پھر وہی دوست مجھے لے کر دفتر گئیں، جہاں اکیڈمی والے سر، میرے اسکول کے پرنسپل سر طلحہ اور کچھ مہمان بیٹھے تھے۔ سر نے سر طلحہ سے کہا: "اسے تھوڑا سا سراہا جائے"۔ سر طلحہ نے مجھے دیکھا، مسکرائے اور بولے: "انعام چاہے جتنا بھی چھوٹا ہو، اُس کی قدر ہمیشہ دل میں رہتی ہے۔ ہم نے آج تک اپنے انعام میں ملنے والی چیزیں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔ آپ بھی یہ نوٹ سنبھال کر رکھنا"۔
پھر انہوں نے وہ پانچ سو کا نوٹ اپنے دستخط کے ساتھ مجھے دیا۔ اُس لمحے مجھے کسی قسم کی مایوسی نہیں ہوئی، بلکہ دل میں ایک عجیب سا فخر محسوس ہوا۔ اُسی وقت جانا کہ جو خواہش دل سے نکلتی ہے، وہ دیر سے سہی، مگر پوری ضرور ہوتی ہے۔ آج میں ان سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ان کے دستخط والا وہ پانچ سو کا نوٹ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔
شکریہ۔۔
اُس دوست کا، جس نے خاموشی میں میرا ہاتھ تھاما۔۔
اُس ٹیچر کا، جس نے اپنی غلطی مانی۔۔
اور اُس لمحے کا، جس نے سکھایا کہ حق مانگنے میں کبھی جھجک نہیں ہونی چاہی۔

