Dhok Sakoon (2)
ڈھوک سکون (2)
خدا خدا کرکے چڑھائی کا سفر طے ہوا، جس کے دوران ہم پسینے سے بدحال ہو گئے۔ میرے سینے میں آکسیجن کی کمی سے درد ہو رہا تھا اور طرح طرح کے خیالات آنا شروع ہو چکے تھے۔ آخر وہ بندہ ہمیں پہاڑ کی طرف جاتا دیکھ کر ہنس کیوں رہا تھا؟ چوٹی تک پہنچ کر ہم سب ہانپنے لگے تھے اور ایک پتھر پر بیٹھ کر کافی دیر تک سانس بحال کرتے رہے۔ چوٹی سے ایک بہت پیارا منظر دکھائی دے رہا تھا۔
سرسبز چوٹیاں، ان کے درمیان سرخ رنگ بہتا پانی، پہاڑی ڈھلان پر تیزی سے اوپر آتا گاوں اور اس کے پیچھے تا حد نگاہ وسیع وعریض دریائی میدان۔ سروے اسٹیشن لگ چکا تھا اور ہم نے پتھروں کی جانچ شروع کردی تھی۔ ڈیم انجنئیرز اور اس کے ساتھی اسٹرکچر کی مناسب جگہ دیکھنے پہاڑی پر آگے نکل گئے تھے۔ جب کہ میں نیچے گاوں میں پارک اپنی چیونٹیوں کو دیکھ رہا تھا۔
سروئیر نے ایک گاڑی پر اپنا بندہ بٹھا کر وسیع وعریض دریائی میدان میں ادھر ادھر بھگانا شروع کیا ہوا تھا۔ میں نے اسے ندی کے عین وسط میں موجود مزار کی بلندی پڑھنے کا بطور خاص کہا تھا۔ جس سے فارغ ہونے کے بعد اب وہ پانی میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہماری ٹیم کو وہاں کام کرتے بہت وقت گزر چکا تھا۔ لیکن ابھی تک کسی طرف سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی تھی اور یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔
تاہم چوٹی سے نظارہ کرنے کے بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ آبادی کے پھیلاؤ اور مزہبی مقامات کی موجودگی کی وجہ سے ہمیں شائد ڈیم سائٹ شفٹ کرنا پڑے۔ میں نے وقت کا حساب کتاب لگایا تا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کوئی متبادل جگہ دیکھ لی جائے اور سروئیر کو وہاں چھوڑ کر باقی ٹیم کے ساتھ نیچے اترنا شروع کیا۔ پونے گھنٹے کی اترائی کے بعد ہم ایک مرتبہ پھر گاڑیوں میں بیٹھ کر مزار کے پاس سے دریائی بیلے میں اتر چکے تھے۔
مزار پر دھونی جم چکی تھی۔ اس بندے کے چہرے پر پراسرار سی مسکراہٹ جاری تھی۔ وہ ہمارے سروئیر کی پانی میں مست گھوڑی کی طرح بھاگتی گاڑی کو دیکھ رہا تھا۔ جو چند سیکنڈ کے لئے کہیں رکتی اور دوبارہ بھاگ پڑتی۔ اس دوران سروئیر ریڈنگ لے لیتا۔ ہم نے دریا میں پہاڑی کے ساتھ ساتھ دائیں جانب جانے کا قصد کیا اور روانگی پکڑی ہی تھی کہ سروئیر کی سفید گھوڑی دلدلی پانی میں پھنس چکی تھی۔
وہ دلدل سے نکلنے کے لئے جتنا زور لگاتی اتنا ہی نیچے بیٹھتی اور بالآخر اس کے پہئے سارے کے سارے زمین میں دھنس گئے۔ اسے ریسکیو کرنے کے لئے ایک اور گاڑی کو بھیج کر ہم آگے روانہ ہوگئے تاکہ مغرب سے پہلے دوسری سائٹ دیکھ لیں۔ ہماری راہنمائی ایک مقامی ٹیچر کر رہے تھے، جو کہ انتہائی کم گو آدمی تھی۔ وہ ہمیں دریا کے ساتھ ساتھ ایک ایسے دوراہے پر لے گئے کہ جہاں سے آگے صرف پیدل کا پہاڑی راستہ تھا۔
اور ادھر سے سورج غروب ہوچکا تھا۔ موبائل سگنل ندارد تھے اور بالآخر میں نے پیدل ٹیم کو واپسی کا حکم دے دیا۔ ہمارے دن کا اختتام ایک تنگ پتھریلے درے پر ناکامی سے ہورہا تھا۔ یہ ایک سخت دن تھا۔ ندی کے اندر واپسی کا سفر اندھیرے میں شروع ہوا اور چند کلومیٹر واپس آنے بعد جیسے ہی موبائل سگنل آنا شروع ہوئے تو پتہ چلا کہ سفید گھوڑی کو بچاتے ہوئے ہماری کالی چیونٹی بھی دلدل میں پھنس چکی ہے۔
میں نے گاڑیاں تیز واپس بھگانے کا کہا جو کہ اندھیرے اور پتھریلے دریائی میدان پر ایک مشکل کام تھا۔ چشم تصور میں مجھے پورا گاوں ہماری گاڑیوں کا تماشا دیکھتے ہوئے نظر آنے لگا۔ کالی چیونٹی باہر آچکی تھی، لیکن سفید گھوڑی ابھی بھی دلدل میں گھڑی تھی۔ رات کے آتھ بج چکے تھے۔ مزار پر ایک دیا روشن تھا۔ ایک سایہ وہاں نظر آرہا تھا۔ ہم نے گاڑیاں پارک کرکے لائنیں جلائے رکھیں۔
بیلچے سے کافی کھدائی کرنے کے باوجود بھی گاڑی پھنسی ہوئی تھی۔ اس کی روشنیوں میں اردگرد کی دلدلی جھاڑیوں کے سائے بڑے ڈراونے لگ رہے تھے۔ ندی کے پانی کے اندر سے مینڈک بولنا شروع ہوگئے تھے۔ ندی کا سرخ پانی بے رنگ ہوچکا تھا اور گاوں سے منگوایا گیا ٹریکٹر بھی گاڑی کو باہر گھینچ کر نہ نکال سکا تھا۔ اس اندھیرے میں اب گاوں کے لوگ بھی آہستہ آہستہ ندی میں اتر کر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔
کچھ نوجوان موٹر سائیکل پر پڑوس کے گاوں بھیج دئے گئے تاکہ ہل چلانے والا بھاری ٹریکٹر منگوایا جا سکے، جو گاڑی کے اگلے ٹائر اٹھا کر دلدل سے باہر کھینچ سکے۔ عجیب لوگ تھے یہ گاوں والے بھی، جو ہمیں خوار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ بلکہ وہ جلد از جلد ہماری وہاں سے روانگی چاہتے تھے۔ وہ اپنا سکون واپس چاہتے تھے۔ ان کے لبوں پر کوئی شکوہ، کوئی طعنہ نہیں تھا۔
آدھے گھنٹے کی مزیذ تگ و دو کے بعد سفید گھوڑی کو بڑا ٹریکٹر ایک ہیرو کی طرح نکال لایا تھا۔ ٹریکٹر والا ہم سے اس مدد کرنے کا کوئی معاوضہ لینے کو تیار نہیں تھا۔ وہ ڈیزل کے پیسے بھی نہیں لے رہا تھا۔ چیونٹیاں رات کے اندھیرے میں واپسی کو تیار تھیں۔ مزار کے درختوں سے دھواں نکلنا کم ہو گیا تھا۔ چبوترے پر ہلنے والا سایہ نیچے اتر کر روشنی میں آگیا تھا۔
وہ ہمیں جاتا دیکھ کر مسکرا رہا تھا، جیسے کہہ رہا ہو "یہ ٹیم بھی خوار ہو کر جارہی ہے" میں وہاں اگلے چند دنوں میں واپس آنے کا سوچ رہا تھا۔ گاڑی میں خاموشی تھی۔ گاڑی انتہائی ناہموار سڑک پر واپس جارہی تھی۔ پہاڑی ڈھلوان پر اوپر نیچے بنے گاوں کے گھروں میں سکون تھا۔ ڈھوک سکون سونے کی تیاری کرہا تھا۔ مزار سے دھواں اٹھنا بند ہوچکا تھا۔