Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Tamacha (2)

Tamacha (2)

طمانچہ (2)

وقت بہت آہستگی سے گزر رہا تھا پل پل مجھے کچل کے میرے ناکارہ ہونے کا احساس دےکر۔ دو چار بار میرے دل میں بھی اپنے بچے کی چاہت جاگی میں نے بے تاب ہو کے کسی ٹیسٹ یا ڈاکٹر کے پاس چلنے کو کہا لیکن اس نے مجھے ڈانٹ کے بٹھا دیا کہ میرے پاس ان مہنگے ٹیسٹوں پہ برباد کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں، تم ہو ہی بانجھ اگر بچہ ہونا ہوتا تو اب تک ہو جاتا۔ میں دل مسوس کے رہ گئی۔

اقرار بھائی کی بیمار بیوی ایک دن اچانک یہ جہان چھوڑ کے چلی گئیں۔ چولہے پہ پلاؤ دم دیا ہوا تھا وہ دم پہ ہی رہ گیا مجھے بچوں کی مسکینی پہ بہت ترس آتا۔ بہت خوبصورت اور پیارے لیکن سہمے ہوئے بچے تھے۔ پہلے بھی کبھی کبھار انہیں نہلا دھلا دیتی تھی، بھابھی کی طبعیت زیادہ خراب ہوتی ساس مجھے بھیج دیتیں کہ ذرا کچن دیکھ لینا کچھ ہلکا پھلکا بنا دینا ملازمین کو بھی متنبہ کر دینا وغیرہ وغیرہ۔

اب تو کسی میکانکی عمل کے تحت میری ڈیوٹی ادھر بھی رہتی۔ پہلے دس دن تک تو پھوڑی آباد رکھنے کے لئے مجھے روز ہی صبح سویرے جانا پڑتا، قل کے بعد بچوں کا سکول جانا شروع ہوچکا تھا۔ انہیں تیار کرنے میں مدد دینا میری ذمہ داری بنتی جا رہی تھی کیونکہ میں گھر میں موجود ہوتی تھی، دسویں کے بعد اقرار بھائی بھی اپنے آفس جانے لگے۔

اس بھاگ دوڑ میں میرے اپنے گھر کے کئی کام تاخیر کا شکار ہو جاتے، کبھی ذہن سے نکل جاتے جس پہ اچھی خاصی لے دے ہونے لگی لیکن میری ساس بردباری اور نزاکت سے سنبھال لیتیں۔ اس روز جمعہ تھا احد اور اشنا کے سکول میں کوئی فینسی ڈریس شو تھا بچوں کو صبح جلدی جانا تھا اقرار بھائی نے کہا چھوٹی بھابھی صبح ذرا بچوں کی تیاری دیکھ لیجیے گا بن ماں کے رہ گئے ہیں، ہمیں تو کچھ سوجھتا ہی نہیں اور روپڑے۔

ساس نے کہا بیٹا فکر نہیں کرو صبح مدیحہ کو جلدی بھیج دوں گی۔ ان کی تسلی دلاسے میں اور بھابھی کو یاد کرنے میں رات زیادہ بیت گئی میں جمعہ کے لئے کپڑے پریس کرنا ہی بھول گئی۔ صبح بچوں کو بھیج کے ان کے ایک دو کام نمٹائے، ماسی کو واشنگ مشین لگانے کی ہدایت دی۔ چھوٹے چھوٹے کئی کام اور بد نظمیاں سمیٹتے ایک بج گیا، بھاگم بھاگ گھر پہنچی تو لاڈ صاحب بگڑے بیٹھے تھے کہ کپڑے کیوں نہیں تیار کئے۔

جوش میں منہ چلاتے چلاتے میرے گال پہ کس کے ایک چانٹا بھی چلا دیا میں نے بے ساختہ سنسناتا گال ہتھیلی کے نیچے دبا لیا، حضرت کا جنون ٹھنڈا نہیں ہوا تو اس جلتے بھانبھڑ میں تین حرف بھی جھونک دئیے۔ میں وہیں چکرا کے گر پڑی خدایا کدھر جاؤں گی؟ اتنا ہی سوچا پھر ہوش نہیں رہا۔ ہوش میں آئی تو ساس بیٹے کو کوس رہی تھیں اور میرے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھیں کہ ہمیں معاف کردو۔

اتنے بڑے مسٔلے میں معافی کی گنجائش تھی نہ پردا۔ یہ شوہر کی بے روزگاری نہیں تھی جس پہ میں خاموشی اختیار کرتی میں سن ہوتے دماغ کے ساتھ والدین کے گھر آگئی انہیں کچھ نہیں بتایا، بتانے کی ہمت ہی نہیں تھی بس ماں سے کہا کہ طبعیت ماندی ہے کچھ دن آرام کرنا چاہتی ہوں۔ بڑھتے بڑھتے آرام کو مہینہ گزر گیا میں منہ سر ڈھانپے کمرہ بند کئے پڑی رہتی۔

اپنی فالتو ذات پیچھے رہ گئی، ایک بہن کی بات چل رہی تھی ڈوبتے دل سے سوچتی ان کا کیا بنے گا؟ امی حیران تھیں کہ تم بیمار ہوکے آئی ہوکسی نے فون تک نہیں کیا؟ مہینے بعد اچانک اقرار بھائی آگئے کہنے لگے نگین کے جانے کا دکھ اب تکلیف میں بدل گیا ہے، چھوٹی بھابھی آپ نے بچوں کو سنبھال لیا تھا تو دکھ صرف دکھ تھا تکلیف اب شروع ہوئی ہے اور نادانستگی امی ابا کو طلاق کی حقیقت بھی بتا دی۔

گھر میں ہاہا کار مچ گئی میرے والدین نے سر پیٹ لیا۔ باقی چاروں بہنوں کے مستقبل بھی تاریک ہوگئے، امی کے پیروں میں جلے پاؤں کی بلی جیسی بے قراری در آئی، شرمندہ سے اقرار بھائی سر جھکا کے چلے گئے وہ رات ہمارے گھرانے پہ بے حد بھاری گزری۔ وہ بھاری رات ہمارے گھرانے پہ یونہی ٹھہر جاتی اگر اقرار بھائی اگلے دن آفس سے واپسی پہ اپنے ہمدمِ دیرینہ اور بیچ میٹ کے ساتھ ہمارے گھر نہ آتے۔

وہ آئے اور ایک قابل عمل تجویز ساتھ لائے تھے، دو اور چار چار کرتے عمر گزری تھی اس لئے تمہیدیں باندھنے کی بچائے دو ٹوک بولے کہ انکل اقرار کے سر پہ ہاتھ رکھ دیجیے اس میں آپ سب کی بھلائی ہے آپ کی بیٹی اسی خاندان کی بہو رہے گی آپ کو بدنامی کا داغ سہنا نہیں پڑے گا، اقرار صاحب کا گھر اور بچے سنبھل جائیں گے اور مدیحہ کو سایہ دار سائبان مل جائے گا۔

عدت پوری ہوجائے تو چپ چپاتے نکاح کرلیں گے۔ ابا نے تھوڑے سے وقت سوچا امی سے اور مجھ سے علیحدگی میں مشورہ کیا پیچھے چار بیٹیوں، کج قطار نے ان سے اثبات کا جواب دلوا دیا۔ اقرار صاحب اگلے دن اور پھر کئی بار بچوں کو ملوانے لائے جو مجھے اپنی متوقع امی کے طور پہ سوچ کے بے حد خوش تھے۔ اللہ جو کرتا ہے ہمارے لئے بہترین ہوتا ہے۔

بہنیں مجھے اقرار صاحب کا نام لے لے کے چھیڑتیں کہ دیکھو تم کیسے کھوٹے سے کھرا سّکہ بن گئی ہو، عدت والا عرصہ یوں سمجھو جیسے تمہاری نحوست کی دھلائی کا وقت ہے۔ بیگم صاحب بننے جا رہی ہو اب ان ناقدروں کو پتہ چلے گا۔ قدرت نکھٹو بندہ لے کے کیسے ہیرے سے نوازنے جا رہی ہے۔

اتنا بڑا گھر بار، گاڑی، ملازم اور افسر میاں بھی تمہارے اور بیٹھے بٹھائے بچے بھی مل گئے اور دکھی ہیروئن خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگی، بہن نے مجھے گدگدایا۔ کوئی افسانہ ہوتا تو یہاں کہانی ختم ہوجاتی لیکن میری کہانی ختم نہیں ہوئی۔ کسی اور جگہ شادی ہوتی تو کہانی کا خاتمہ ہو جاتا یہاں پہ جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ گذشتہ پہ پیوستہ تھا۔

عدت کے بعد خاموشی سے بیاہ کے اقرار کے گھر جا اتری۔ گھر کے افراد کام اور ماحول میرے لئے نیا نہیں تھا بس میری حیثیت بدل گئی تھی، مجھے مالکانہ حقوق عطا کر دئیے گئے تھے۔ بچوں نے میرا شایان شان استقبال کیا اور مجھ سے والہانہ لپٹ گئے۔ اسی شام ساس سسر پیار دینے آئے تھے میری جھجھک پہ اقرار نے بتایا کہ چچا چچی کی بھی یہی خواہش تھی۔

چار پانچ مہینوں میں ان کے کس بل نکل گئے تھے، پیار دیتے روپڑیں کہ نکھٹو کو سنبھالنا بھی پڑ رہا تھا اور اتنے مہینوں سے باقی بیٹے ملنے بھی نہیں آئے تھے۔ رفتہ رفتہ دو سال گزر گئے بچے مجھ سے یوں گھل مل گئے جیسے میری جنموں سے جلی کوکھ ہی سے جنم لیا ہو۔ قریبی رشتہ داری ہے اور پھر محلے داری بھی ہے تو کئی بار خوشی غمی میں میرے سابقہ جیٹھ اور جیٹھانیاں بھی آجاتے ہیں۔

میرے پیروں کے نیچے اب پھول کھلتے ہیں، میرا لباس اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کے مرعوب ہوتے ہیں، مجھے ان کی خاطر داری کے لئے تکلیف نہیں کرنا پڑتی خانساماں کو پتہ ہے کس مہمان کی کیسے خاطر داری کرنی ہے؟ اب میں ان سب کی بڑی بھابھی ہوں جس کا شوہر معاشرے کا انتہائی ذمہ دار فرد ہے، سو مجھ سے بات کرتے ان کی نظروں میں ایک مرعوبانہ احترام ہوتا ہے۔

کبھی کبھار اپنے سابقہ شوہر سے بھی سامنا ہوا ہے۔ پہلی بار اچانک سامنا ہونے پہ میرا اور اس کا ہاتھ بے ساختہ اپنے گال پہ گیا تھا پھر اس کی نظریں بے اختیار جھک گئیں، قدرت نے اس کے گال پہ کیسا طمانچہ رکھا تھا؟ جو اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔ قدرت میرے لئے یہ راستہ نہ نکالتی تو میں کیا کر سکتی تھی؟

اقرار اب بائیسویں گریڈ یعنی اپنے کیرئر کی پیک پہ ہیں، آفس میں ان کی ایکسٹینشن آنے کی خبریں ہیں۔ میرے ان دیوروں کو یہاں تک پہنچنے میں ابھی کئی برس لگیں گے۔ میں اس طرح نوازے جانے پہ ہر دم اپنے ربّ کی شکر گزار ہوں۔

Check Also

Muaqaf Ki Talash

By Ali Akbar Natiq