1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Reesham Tai

Reesham Tai

ریشم تائی

اے نوج۔ اے بی بی ذرا یہ تو بتلاؤ کیا تم بھی وہ موا کیا کیا کہتے ہیں اسے، ائے ہاں ایف بی۔ کیا تم بھی ایف بی پر سارا دن گِٹ پِٹ کرتی ہو۔ تائی نے ہمیں بچوں کی بخشیش پرانے ماڈل کے لیپ ٹاپ پر انگلیاں پھراتے دیکھ کر (ہم ایک ضروری میل فوری سینڈ کرنا چاہتے تھے، ڈیڈ لائین اوور ہونے میں چند ہی منٹ رہتے تھے) دیسی گھی سی چپچپاتی زبان ہونٹوں پر پِھراتے ہوئے پوچھا ،ہم آ لو کا تیسرا پراٹھا کاؤنٹر پر رکھ چکے تھے ،جب تائی نے بس کا اشارہ کیا تھا۔ہم نے بچھو سے ڈنگ کھائے، درد سے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔ یہ غیر مردوں سے ہنسی ٹھٹھول۔ گپ شپ انہوں نے مزید گھٹیا وضاحت دی۔ یہ موا شوشل میڈیا کہتے ہیں جسے، مجھے تو چھتیس نمبر والی شبنم نے کل بتایا ہے۔

اچھا اور کیا بتایا شبنم نے۔ ہم نے کڑے ضبط سے ان کے مدعا کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔ شبنم دو گلیاں چھوڑ کر 36B میں رہتی ہے ہماری نئی بننے والی ہم مزاج و ہم عمرسہیلی۔۔ میاں کا شارجہ میں کہیں بزنس ہے۔ ایک چھوٹی بیگم اور بچوں کے ساتھ وہیں رہتے ہیں مہینے دو میں یہ بھی چکر لگا آ تی ہے فیملی سے ملنے اور شاپنگ کے نام پر۔ ورنہ خوبصورت گلابوں والے سفید بنگلے میں بند، سر پیر سے اتارے شیشہ پیتی رہتی ہے اور کتب بینی کی انتہائی دلدادہ و شوقین ہے۔ گھر کو رفتہ رفتہ لائبریری بناتی جا رہی ہے۔ کھلا پیسہ ہو تو کھل کھیلنا ہی چاہئیے۔ اکثر گھر میں ادبی محافل اور مشاعرے رونق میلے کے لئیے کرتی رہتی ہے۔ ہمیں بھی کئی بار دعوت دے چکی لیکن ہم ابھی اتنی فرصت نہیں پاتے۔

تائی شاید اس سوسائٹی کی جگت تائی ہیں۔ یوں تو ہم ہر کسی کے ساتھ رشتے نہیں بناتے اور خصوصاً بڑے رشتے (کسی غیر کو چچا یا تائی، خالہ کہنا) تو بالکل بھی نہیں۔ چاہے امی کی عمر میں خواتین ہوں یا ابا سے بڑے بزرگ ہوں۔ سر اور محترم و محترمہ کہہ کر کام چلا لیتے ہیں۔ باامرِ دیگر ہمیں تمام دنیا ہی خود سے چھوٹی لگتی ہے۔ ہم تو کبھی ازل میں پیدا ہوئے تھے اور عمرِ خضر لکھوا لائے۔ نہ کبھی بچّے تھے نہ کبھی جوانی آ ئی بس صدیوں کے بوڑھے ہیں۔

لیکن تائی ریشم کو پہلی بار شبنم کے ہاں ہی کھانے کی میز پر دیکھا تھا واقعی اسمِ بامسّمی لگیں۔ شبنم نے تائی ریشم کہہ کر تعارف کروایا اور ہم نے بھی کھٹ سے تائی کی مسند پر بٹھا دیا۔۔ تائی بھی مجّسم تائی ہیں جس نے پہلی بار انہیں تائی پکارا ہوگا بڑا ہی کوئی سمجھ دار ہوگا۔۔ بھاری لیکن متناسب و مضبوط جسامت کے ساتھ چھ فٹ کو چھوتا ہوا قد۔ سفید ریشم کے لچھے جیسے بالوں کا پیاز کی گانٹھ جیسا جُوڑا، سفیدی آ میز کپڑے، گریبان کی پٹی پہ سونے کے جگمگاتے بھاری بٹن، چارموم کا جھاگ سا دوپٹہ، سفید قیمتی موتیوں کی مالا، Liza کے سینڈل۔ ہاتھی دانت کی مٹھ والی چھڑی، دبنگ لہجہ اور ان سب کا مجموعہ تائی ریشم۔اکلوتی بہو سے نالاں رہتی ہیں اور گھر والوں کو بھرم دکھانے کے چکر میں کہ میں بوجھ نہیں اپنے کھانے پینے کا بار تیرے میرے پہ ڈالے رکھتی ہیں۔ جو نہ سمجھے اسے کون سمجھائے۔

ای میل سینڈ ہوگئی ہم نے لیپ ٹاپ پرے کھسکایا۔ اس دوران ہماری ایک ایک جنبش تائی کی کنجی آ نکھوں میں رَڑک رہی تھی ،کچھ پوچھا ہے تم سے؟ انہوں نے ہمارے تَجَّنب کو بارِ خاطر سمجھا اور تیکھی چتون سے گویا ہوئیں کسی سخت گیر بزرگ سا کڑا لہجہ اختیار کیا۔ سچ پوچھئے تو سخت تکلیف ہوئی۔ فیس بک استعمال کا اتنا گھٹیا مطلب بھی لیتے ہیں لوگ، دل میں ٹیس اٹھی۔نہیں تائی ہم کسی اجنبی سے گپ شپ نہیں لگاتے، نہ کبھی کوئی ایسی کال ریسیو کرتے ہیں۔اچھا، انداز بدستور مشکوک ہی تھا۔میں نے تو سنا ہے شوشل میڈیا آ زادانہ گپ شپ لگانے کی جگہ ہے۔

شاید ایسا ہو۔ لیکن ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ سوشل میڈیا تو پانی جیسی ساخت رکھتا ہے جس برتن میں ڈالو وہی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کا استعمال بھی پانی کی طرح آ پکے ہاتھ میں ہے۔ یہ اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔ ہم سوشل میڈیا رائیٹر ہیں یہ ہمارے کام کی جگہ ہے تو کام کے سلسلے میں کچھ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور بات بھی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی برائی تو نہیں ہے۔ ہم نے پھانس گڑے دل سے بہت کچھ سوچتے ہوئے آ سان وضاحت پیش کی۔ تائی ریشم جگت تائی تھیں اور ہمیں نئی جگہ پر اپنی اخلاقیات کا اشتہار نہیں لگوانا تھا۔تائی نے بے یقینی سے ہمیں نظروں میں تولا۔ اور کچھ سوچتے ہوئے بیرونی دروازے سے باہر نکل گئیں۔ تائی نے سوال کیا تھا انہیں تو سمجھا دیا۔ جو لوگ بنا پوچھے ہی رائے بنا لیتے ہیں ان کا کیا کیا جائے؟

Check Also

Danda Peer Aye Shuf Shuf

By Zafar Iqbal Wattoo