Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Darzi Se Aaj Meri Jang Ho Gayi (2)

Darzi Se Aaj Meri Jang Ho Gayi (2)

درزی سے آ ج میری جنگ ہوگئی(2)

آ خری پانچ چھ روزے رہتے تھے، مسز قریشی ساڑھی کا پلّو سنبھالتی سیدھا کسی افطار ڈنر سے چلی آ ئیں۔ بہت دفعہ مشکل وقت میں کام آ ئیں تھیں۔ ماسٹر عبدالغفور کی منجھلی بیٹی ڈاکٹر بن رہی تھی، بہت لائق تھی پڑھائی میں۔ ساری معلومات مسز قریشی نے بہم پہنچائی تھیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ جب بھی کالج کے سالانہ واجبات ادا کرنے ہوتے، مسز قریشی کبھی بخل سے کام نہ لیتیں، وہ قرض سال چھ ماہ کی اقساط میں سہولت سے لوٹایا جاتا۔ انکی تابعداری لازمی تھی۔ زبان کی میٹھی تھیں، انکار تو ممکن ہی نہیں۔ حالانکہ پندھرویں روزے کے بعد کام لینا بالکل بند کردیا تھا، ہر طرح کے لحاظ اور مِنّت سماجت کو برطرف کرتے ہوئے۔ اور دکان پر معذرت کی ایک نئی تختی بھی لٹکا دی تھی، کہ اپنا اور کسٹمر کا وقت برباد نہ ہو۔

ساڑھے گیارہ بج گئے، جوڑوں کا ڈیزائن ڈسکس کرتے کرتے، دو جوڑے انہوں نے ماسٹر عبدالغفور کی مرضی کی ڈیزائننگ پہ چھوڑ دیئے۔ ماسٹر صاحب نے اپنا دماغ کچھ خالی سا محسوس کیا، کنپٹیاں دبائیں، سر کو جھٹک کر گویا دماغ کو اسکی جگہ پہ بٹھایا، جی حضوری کرتے کرتے زیادہ ہی بل کھا گیا تھا۔ کل سے ابا جی کہ طبیعت کافی خراب تھی، منع بھی کیا تھا اس سال روزے نہ رکھیں، مگر وہ اللہ کے بندے پتہ نہیں اگلے سال رمضان ملے نہ ملے کہہ کر اپنی دھن میں لگے رہے۔ حالانکہ کام کی زیادتی کے دوران ماسٹر عبدالغفور خود کبھی کبھی آ نکھ نہ کھلنے کے سبب روزہ چھوڑ دیتا تھا۔ بیٹی کی کال پہ بھاگم بھاگ گھر پہنچا، ابّا جی کا بی پی سخت لو ہوا پڑا تھا۔ ٹوٹکوں کا ٹائم نہیں ہے ابا، جلدی سے ہسپتال لے جائیے دادا کو۔ پھر ڈاکٹر صاحب کی مسز کا حوالہ کام آ یا اور اٹینڈنٹ جلد ہی ساتھ لے گیا، ابا جی کو ڈرپ لگی اور حواس بحال ہوتے ہوتے تین گھنٹے ہوگئے۔

واپس آ یا تو چار میں سے ایک کاریگر ہاتھ چھوڑے بیٹھا تھا، مشین کا پٹہ ٹوٹ گیا تھا۔ جوان کاریگر اور لونڈے سب خر مستیوں میں مصروف تھے، ذمہ داری تو بس ماسٹر عبدالغفور کی تھی، مارا مار پٹہ منگوایا، بدلی کیا تو کام شروع ہوا۔ مسز غلام علی کا فون آ گیا، ماسٹر صاحب فیروزی دوپٹے پہ پٹی لگوانی ہے۔ اور میرون پہ گوٹ۔ اورنج والی شرٹ کا دامن بیک سے لمبا اور فرنٹ سے چار انچ چھوٹا ہو، اس دن تو چوکور دامن لکھوایا تھا، مگر اب لگ رہا ہے کہ یہ جِدّت اورنج والے پہ خوب جچے گی۔ جی بیگم صاحبہ ٹھیک۔ ایپل گرین جوڑے کی شلوار بنا دیجئے، پھر سے فیشن میں ہیں۔ یوں بھی سارے ہی ٹراؤزر بن گئے، جی ٹھیک ہے۔ اور وہ کچھ سوچتے ہوئے کہنا ہی چاہ رہی تھیں، کہ ماسٹر عبدالغفور نے لڑکوں کے شور پر متوجہ ہوتے ہوئے ڈسکنٹ کر دیا، اور جلدی سے فون ہی آ ف کر دیا، مبادا پھر نہ کال ملا لیں۔

چھوٹا جو سیگریٹ پینٹس کی سیدھی سلائیاں جما رہا تھا، انگلی مشین میں دے بیٹھا تھا، اسکے واویلے پہ ہاتھ بڑھا کر ڈیٹول کا پھوہا لگاتے، مسز خان کی ساری نصیحتیں بَھک ہو گئیں۔ کرامت یوں کر، بیگمات کے سارے سارے جوڑے تو اب سلنے سے رہے، دن بہت کم رہ گئے ہیں، دو دو تین تین جوڑے نکال، باقی عید کے بعد دیکھی جائے گی۔ اور دو تین نکالتے کچھ ڈیزائن والی پرچیاں ادھر ادھر ہو گئیں۔ سر جی یہ تو سب گڈ مڈ ہو رہی ہیں۔ الّو کا پٹھا اتنا سا کام نہیں ہوتا۔ اور کرامت کا منہ سرخ، نتھنے پھولنے پچکنے لگے۔ جتنا مرضی ڈانٹ لو، گالی برداشت نہیں کرتا تھا، مگر آ ج تو بے ساختہ نکل گئی تھی۔ پچھلے سال عین دھندے کے دنوں میں، اسی گالی کی وجہ سے جواب دے کر چلا گیا تھا۔ اب اسی کو کور کرنے میں لہجے کو کافی نرم کرنا پڑا۔ لا ادھر مجھے زبانی یاد ہے، غفور نے اپنا پتہ پانی ہوتے محسوس کیا۔ یہ ڈیزائن گلابی کا ہے۔ یہ پیلے کا یہ ہرے کا۔

آ خر اسی مارا ماری میں ستائسواں روزہ آ ن پہنچا، گاہک واپسی کے لیئے فون اور ڈرائیور دوڑانے لگے۔ بیگمات خود بھی کئی کئی چکر لگا گئیں، کہ مارکیٹ کا چکر لگا تھا، سوچا کچھ سل گیا ہے تو اٹھا لوں۔ دماغ کے ساتھ ساتھ سِلے ہوئے جوڑے بھی با اصرار اٹھاتی رہیں۔ انکی حاصل، وصولی کا انداراج اور ڈوپٹے اورلاک پورے کرتے کافی ٹائم لگ جاتا۔ کچھ کپڑے کمی بیشی کی شکایت کے ساتھ واپس آ نے شروع ہو گئے۔ اسکا گلا ڈیپ ہے۔ ہری والی میں سر ہی نہیں جا رہا۔ مسز غلام علی کو بڑی تپ چڑھی ہوئی تھی، گول دامن کہا تھا پھر چوکور کیسے ہوگیا۔ گرین کی شلوار کیوں بنا دی؟ جب کہ تیسری دفعہ فون کر کے کہا تھا، سیگریٹ پینٹ بنانی ہے۔ ماسٹر عبدالغفور کو لاکھ سر مارنے پہ یاد نہیں ٓ آرہا تھا، کب ہدایت نامہ بدلا تھا۔ یہ اورنج جوڑا بیٹی کا تھا، میرے ناپ پہ کیسے سل گیا؟

کرامت مسز شکور کو فون کر، انکی بیٹی کی لیس ابھی تک نہیں پہنچی۔ ماسٹر عبدالغفور نئے لفڑے کا سوچ کر ہی پریشان ہوگیا۔ مسز چوہان کی گلابی قمیض کا بتایا ڈیزائن، نیلی قمیض پہ بہار دکھا رہا تھا، اور انکا مزاج گاگلز کی طرح ماتھے پہ رکھا تھا۔ اتنی لمبی چوڑی سلائیاں لے کر بھی یہ حال ہے، آ گے پیچھے تو ٹھیک سیتے ہیں، عید کے جوڑے ہمیشہ خراب کر دیتے ہیں۔ ان کی بڑبڑاہٹ ہی کم نہیں ہو رہی تھی۔ بیگم صاحبہ چھوڑ جائیے، میں جگاڑ لگا لوں گا، غفور نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔ یہ استاد کی ساری استادیاں ہمارے اوپر ہی چلتی ہیں۔ پندرہ بیس جوڑے تو ادھیڑ بن کے ضمن میں پھر رکھ لئیے، انکے آ گے نہیں بول سکتا۔ کرامت نے بغاوت اور کمینگی سے سوچا۔ عید کی صبح سات بجے منگوا لیجئے گا۔ جی جی دکان کھلی ہو گی، ایک اور کسٹمر کو تسلی دی گئی۔

بیگم فیاض کے کپڑوں والا شاپر کہیں کونے میں ہی لگا رہ گیا تھا، آ ج کی واپسی تھی۔ ماسٹر عبدالغفور نے کل کی یقین دھانی کے ساتھ ماتھے کا پسینہ پونچھا۔ مگر وہ تو شائد آ ستینیں چڑھانا چاہتی تھیں۔ مسز قریشی کی نرمی اور میٹھی زبان، اس دن دراز ہوئی تو اچھی خاصی گرمی دکان میں پھیل گئی۔ اور ساری خوش گوئی شاپر کے ساتھ کاؤنٹر پہ دے ماری۔ ماسٹر عبدالغفور کا لہجہ بھی نتائج سے بے پرواہ ہو کے گستاخ ہو گیا۔ بحثا بحثی کے شور میں فون کی ناگوار گھنٹی بھی شامل ہو گئی، اور بس غیر حاضر دماغی کی کیفیت میں ریسیو کر لیا۔ چھوٹی والی بیٹی تھی، ابا شام واپس آ تے ہوئے ہمارے جوڑے بھی لے آ ئیے گا، اب تک تیار ہو گئے ہوں گے، استری وغیرہ کر لیں گے، بجلی کا مسئلہ ہی رہتا ہے۔

بیٹی کی چہکتی ہوئی آ واز کو، یاس میں بدلنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اچھا جب گھر جاؤں گا تو پیار سے راضی کر لوں گا، پچھلے سال والے پہن لیجو۔ انکے کپڑے رکھے کہاں ہیں، یہ بھی یاد نہیں آ رہا تھا۔ دادی ماں کی طبیعت بگڑی ہوئی ہے دوپہر سے۔ اس نے فون کاٹ دیا، سامنے کھڑی بیگم صاحبہ بھنائی ہوئی گھور رہی تھیں۔ سمجھتی ہیں زرخرید ہے، ماسٹر صاحب کی سوچ باغی ہوئی۔ بڑی مشکل سے بیگم صابہ کا غصہ ٹھنڈا ہوا، چاند رات کی واپسی کے وعدے پر۔ اور اندر کرامت سوچ رہا تھا، ہم اس سال بھی عید کی نماز نہیں پڑھ سکیں گے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail