Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wisal Ahmad
  4. Qaum Ka Mustaqbil Nojawan Tabqa

Qaum Ka Mustaqbil Nojawan Tabqa

قوم کا مستقبل نوجوان طبقہ

کسی بھی قوم و قبیلہ کا سرمایہ و اثاثہ نوجوان ہی ہوا کرتے ہیں، نوجوان علاقہ کی پہچان اور قوم و وطن کے محافظ بھی ہوا کرتے ہیں، قوم کی امیدوں کا مرکز بوڑھوں کا سہارا مستقبل کی آس و امید یہی نوجوان ہی ہوتے ہیں، کسی بھی قوم کی تاریخ کو بدلنے اور ایک نیا رخ و راستہ دینے والے ہمیشہ نوجوان ہی ہوتے ہیں، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کے زینے عبور کیے ہیں تو مرکزی کردار نوجوان ہی رہا ہے۔

تاریخ کے اوراق اس بات کو بھی بیان کرتے نظر آتے ہیں، جب بھی کسی مظلوم نے پکار دی ہے۔ غیرت مند بن کر اس مجبور و مظلوم اور مقبوض کی آواز پر لبیک کہنے والا اور دشمن کے چنگل سے چھڑانے والا یہی نوجوان تھا دور اسلاف کو دیکھا جائے تو بیشمار اس کی مثالیں تاریخ کے اوراق پر قرطاس کی جاچکی ہیں۔ یہ نوجوان جو تاریخ رقم کرتے ہیں۔

وہ برسوں تک بعد میں آنے والوں کے لیے ایک سبق ہوا کرتی ہے یہ نوجوان نسلِ انسانی میں وہ شہ رگ کی مانند ہے کہ اگر یہ کٹ گئی یعنی یہ نوجوان زائل ہوگیا تو پھر ہماری تباہی و تنزلی میں کوئی دوسری شئے رکاوٹ نہیں بن سکتی، پستی کی علامت یہی ایک سبب ہے کہ ہمارا نوجوان جو کْل اثاثہ تھا، وہی تباہ ہو رہا ہے۔ اگر آج ان نوجوانوں کی صحیح نہج پر تربیت نہ کی گئی، ان کی سمت کا تعین نہ کیا گیا۔

ان کو ان کے روشن مستقبل سے روشناس نہ کرایا گیا تو کل ہمارے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا، آج ہی اس گرم خون کو بتانا ہوگا "احساس و ضمیر کسے کہتے ہیں" آج اس چڑھتی جوانی کو یہ باور کرانا ہوگا "حیاء و پاکدامنی" کسے کہتے ہیں۔ آج اس جوش مارتے جذبات کو بتانا ہوگا "میرے ملک اور میرے شہر کے المیے کیا ہیں" آج اس ذہین و فطین اور متین سٹوڈنٹ کو بتانا ہوگا کہ "تعلیم کی کتنی اہمیت ہے"

معاشرہ و سماج کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان کو صحیح معنوں میں رہنمائی دی جائے، اس کو مقصدِ حیات بتایا جائے، سب سے اول تعلیم کو لے لیا جائے تو ہمارے نوجوان کا تعلیمی شوق خود اس سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، کوشش یہی ہوتی ہے کسی طرح ان کتابوں سے جان چھوٹ جائے اور بعد میں کسی سفارش کے ذریعے نوکری مل جائے، جو چند ایک شوق رکھتے ہیں۔

وہ پاکستان کے محکمہ تعلیم کی طرف دیکھ کر باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہیں پر راحت محسوس کرتے ہیں، کیونکہ پاکستان کا محکمہ تعلیم ان چیزوں کا متحمل نہیں ہے کہ یہاں ایک پڑھنے والا بچہ صحیح طریقے سے تمام لوازمات کے ساتھ پڑھ سکے، دونوں طرف معاملہ الٹ ہے طلباء میں شوق نہیں محکمہ تعلیم کے پاس وہ معیار نہیں، اگر ہے۔ تو معلم اس احساس سے عاری ہوتا ہے کہ اس نوجوان کا مستقبل کیا ہے؟

کتنے ذہین و فطین ایسے دیکھے جو ناکامی در ناکامی کا شکار ہورہے ہیں، کاش ہم نوجوانوں میں وہ شوق بیدار ہو جو زندہ و جاوید نسلوں کے جوانوں میں ہوا کرتا ہے اور معلم میں وہ تڑپ ہو، جو ایک ترقی یافتہ نسل کے اساتذہ میں ہوا کرتا ہے اور اداروں کی وہ ترجیحات ہوں، جو طلبا کی ضرورت ہیں تو یقیناً دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اس ملک کو ترقی کے زینے عبور کرنے سے روک نہیں سکتی۔

دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں، اولاد کا معاملہ جو والدین کے ساتھ ہم میں سے ہر کوئی بہتر جانتا ہے، کیا اس کا وہی سلوک ہے۔ جس کا حکم ہمیں قرآن مجید کی تعلیمات یا شریعت محمدیہ میں حضور اکرم ﷺ کے فرامین کی روشنی میں ملتی ہیں، کیا آئے روز نوجوانوں کا اپنے والدین کی گردنوں پر چھریاں چلا دینا ایک لمحہ فکریہ نہیں؟ کیا آئے روز انہی والدین کو اولاد کی خاطر روتا اور دھکے کھاتا دیکھ کر آپ کے دل پر کچھ گذرتی ہے۔

تو وہ نوجوان جو دل دکھاتا ہے، وہ کس قدر شقی اور بدبخت ہوتا ہوگا، کتنی راتیں ہمارے والدین کی آنکھوں میں راہیں تکتے گزر جاتی ہیں کہ ہمارا بیٹا اب آئے گا، بوڑھے والدین حیاتِ مستعار کی آخری سانسیں لے رہے ہوتے ہیں اور نوجوان بیٹا اپنے دوستوں میں مست پارٹیاں اڑانے میں مگن ہوتا ہے، کتنے نوجوان حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں اور والدین بھی اسی صدمہ میں جان دے بیٹھتے ہیں۔

تو والدین کے حقوق، تابع فرمانی کے حوالہ سے کچھ سوچنا ہوگا۔ کہ ہم کس قدر جانشین ہیں، تیسرا ہمارا المیہ دوسرے کے ساتھ ہی ملحق ہے کہ جب ہم عیاشی والی زندگی میں مست ہوتے ہیں تو ہائے، کتنے نوجوان ایسے دیکھے ہیں، واللہ جو نشہ جیسی لت میں مررہے ہوتے ہیں، کتنوں کی قیمتی زندگیاں بیکار و عبث ہو جاتی ہیں، نجانے کیوں۔

اس تباہ کاری میں ہاتھ ڈالتے ہیں، ہمارے معاشرے میں جیسے جیسے منشیات کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے، ویسے ہی نوجوان نسل کی اموات میں اضافہ ہورہا ہے، کئی گھر اجڑ رہے ہیں کئی بیٹیوں کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں، نسلوں کی نسلیں اس کام میں تباہ ہو رہی ہیں تو ہمیں اس لت سے بھی جان چھڑانے کے لیے رب سے مانگنا ہوگا اور اپنے اوپر جبر کرکے چھوٹے سے چھوٹے نشے کو بھی آہستہ آہستہ ترک کرنا ہوگا، تب ہی ہماری کامیابی ممکن ہے۔

چوتھا اور سب سے گہرا درد یہ ہے کہ ہمارا نوجوان انٹرنیٹ میں پھنس گیا ہے یہ ایسی مہلک مرض ہے۔ جس سے زندگی کے ختم ہونے تک بمشکل ہی جان چھوٹ سکتی ہے، ان نوجوانوں کی تنہائیاں دیکھ لو، ان نوجوانوں کی فون کالز دیکھ لو، ظلم والدین کی جانب سے یہ ہے کہ ایک الگ سے کمرہ دیا ہوا ہے اور اس میں وائی فائی WiFi لگا دیا ہے والدین بہت خوش ہیں کہ جوان بیٹا کمرے میں پڑھ رہا ہے یہ نہیں علم کہ وہ کن کالوں پر مصروف ہے۔

یا کن برے کاموں میں پڑ رہا ہے تو خدارا اگر اپنے بیٹوں کو موبائل فون لیکر دیا ہے تو ان کی نگہداشت آپ کے ذمہ ہے اور اس کے آپ جوابدہ ہوں گے، اور نوجوانوں سے گذارش ہے کہ چند لمحات کی لذت کی خاطر کیوں آخرت اور دنیا کی خوشگوار زندگی کو تباہ کرتے ہو، خدارا تھوڑا سا نہیں مکمل سوچیے گا کہیں میں غلط راستے پر تو نہیں ہوں، آخری بات یہ کہ "ہم احساس کے ادراک سے محروم ہیں اور مردہ ضمیروں کے رئیس ہیں"

یہی نوجوان محمد بن قاسم اور نورالدین زنگی بن جایا کرتا تھا یا اس موضوع سے ہٹ کر فلاحی و سماجی تنظیموں کو چلانے والے یہی نوجوان ہوا کرتے تھے۔ غریبوں کا ملجا، یتیموں کا سہارا، مظلوموں کا فریاد رس اور مجبوروں کا کفیل یہی نوجوان ہوا کرتا تھا۔ غرض اور خلاصہ یہ کہ اگر نوجوان درست سمت پر چلنا شروع کردے تو مکمل معاشرہ درست ہوسکتا ہے۔

Check Also

Kuch Bhi Paka Lo

By Umm e Ali Muhammad