Long Marchon Mein Phansa Pakistan
لانگ مارچوں میں پھنسا پاکستان
دلاسے ازبر یاد ہوچکے ہیں جن پر تھوڑے دھیان کی ضرورت ہے پھر اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ جو ہمیں بار بار کہا جارہا ہے کہ مسائل ایک دن ختم ہوجائیں گے اور ہر طرف سے بس یہی ایک دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ تو ہم ہیں جو ان مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔ برسوں کے دشمن جب اچانک راتوں رات دوست بن جاتے ہیں تو سوچنا پھر ناگزیر ہوجاتا ہے اور بنیادی مقصد کی نوعیت پر تحقیق کی بلاشبہ ضرورت ہوتی ہے لیکن جہاں کھوپڑیوں میں پڑا دماغ ماؤف ہو چکا ہو وہاں صرف تاریخ کے وہ تلخ تجربے ہی دہرائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے کروڑوں لوگ صرف چیخنے پر اکتفاء کرکے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ہم نے تو حق ادا کردیا۔
حق ادا کرنے کے لئے کس حد تک جانا پڑتا ہے یہ سوچنا شدید مشکل بن چکا ہے۔ عمران خان سے بنیادی اختلاف یہی رہا کہ موصوف نے جو کچھ اقتدار سے پہلے اقتدار کے حصول کے لئے کیا ٹھیک نہیں کیا۔ وہ بل جلانا اور کنٹینر پر چڑھ کر دوسروں کے کے لئے وہ زبان استعمال کرنا جو ہرگز ٹھیک نہیں تھا واقعی غلط ہی تھا۔ موجودہ حکومت نے بے شک کسی بھی ادارے میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا لیکن صرف ایک شخص کے ہٹانے سے کیا مسائل حل ہوسکیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس گھناؤنے کھیل کا آغاز جنہوں نے کیا تھا اب یہ کھیل خود انہی پر آزمایا جارہا ہے۔ کھیل کیا ہے بس صرف چیخ و پکار اور میں ٹھیک سب غلط کا واویلا ہے۔ ہم کیا اس دنائی میں صرف ایسے کھیل دیکھنے آئے ہیں۔ جواب طلب ہے۔
مہنگائی کمر توڑ ہے اور بے روزگاری شدید۔ ایک بزرگ کی وہ بات شائد ٹھیک ہے کہ یہ ملک اور اس ملک میں بسنے والے کھبی بھی نہیں سدھر سکتے اور وجہ جس کی یہ ہے کہ یہاں دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا، یہاں ہر ایک کو خود اپنی بات اور اپنے نظریات ٹھیک لگتے ہیں جنہیں دوسروں پرمسلط کرنا وہ اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ مثال کے طور پر ہماری سیاسی جماعتوں کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجئیے آپ کو تاریخ میں کوئی ایسا واقع نظر نہیں آئے گا جس میں کسی ایک سیاسی پارٹی نے اخلاقی طورپر دوسرے کی حوصلہ افزائی کی ہو۔ دوسرا، عام لوگوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کوئی تو آئے گا جو انہیں بدلے گا۔ اس مائنڈ سیٹ کا نقصان اتنا شدید ہے کہ ہر نظرئیے سے جڑے انسان کی الگ برین واش ہوئی ہے جس سے نکلنا اس کے لئے ناممکن ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی پارٹیوں سے منسلک کارکن ایک دوسرے کا منہ تک نوچ ڈالتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے نظریات پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
بحرانوں سے نمٹنے کے لئے قوموں نے کتنے زبردست طریقے ایجاد کئے باقی تاریخ میں رہ جاتے ہیں ہم تو منظرنامہ سب کے سامنے ہے انسانوں کا ایک جم غفیر ہے جن کو مستقل طور پر اطمینان نہیں مل رہا۔ سڑکوں اور بیچ چوراہوں پر ایک دوسرے کی پگڑیاں وہ لوگ اچھال رہے ہیں جن سے امیدیں یہ وابستہ ہیں کہ یہی لوگ ہماری تقدیر لکھیں گے۔ مذہبی لوگوں کا بنیادی شکوہ یہ رہا ہے کہ خان صاحب نے ڈی چوک میں ڈی جے کے گانوں پر قوم کو ناچ گانوں میں مصروف رکھ کر انقلاب کی نوید سنائی اور جب مسند اقتدار پر براجمان ہوگئے تو پورا نظام ہی خراب کردیا لیکن گجرانوالہ میں رات دو بجے تک ڈی جے کے گانوں پر وہی کچھ ہوتا رہا جن پر یہ لوگ شدید اعتراض کر رہے ہیں اور امید ہے آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔
کھل عام ڈی جے کے نغموں پر عوام ناچتی رہی اور تین بڑے نظریات کے نغمے چلتے رہے اور گھروں میں موجود عوام اس بات پر خوش ہوتی رہی کہ چلو گیارہ پارٹیاں ایک ساتھ لوگوں کا غم بانٹنے نکلی ہیں کچھ تو اچھا ہوگا۔ راستے کا انتخاب کیسے اور کیوں کیا جاتا ہے یہ اس بنیادی نصب العین میں موجود ہوتا ہے جس سے نظریہ جنم لیتا ہے لیکن جب اقتدار کے حصول کے لئے صرف واہیات پر اکتفاء کیا جاتا ہے تو نظام بدلتا ہے نہ روئیے۔
سوال بہرحال ذہن میں یہ آتا ہے کہ ڈی چوک میں ناچ گانوں کی جو شدید مخالفت یہ لوگ کرتے رہے اب اپنے احتجاجی جلسوں میں اسی فارمیٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کے بنیادی اختلافات میں اہم اختلاف یہ رہا کہ ڈی چوک میں ڈی جے کے گانے تھے جن پر ناچ ناچ کر لوگوں نے ملک کی شدید بے عزتی کی تھی۔ گجرانوالہ میں رات دو بجے تک مولانا صاحب کے لوگ ڈی جے کے نغمے ہی تو سنتے رہے۔ لازمی بات ہے ایک چیز عمران خان کے لئے اگر حرام ہے تو کسی اور کے لئے حلال کیسے بن سکتی ہے۔
نظام بنانے والے اگر آگے جاکر بھی نظام کا مہار سنبھالیں گے تو کس نظرئیے کا پلڑا بھاری ہوگا یہ بہر حال انہوں نے ہی طے کرنا ہے۔ پی ڈی ایم ظاہری طور پر تو یہی راگ آلاپ رہا ہے کہ عام آدمی کی زندگی آسان ہو لیکن یہ سب کیسے طے ہوگا یہ کسی نے پہلے سوچا ہے نہ اب سوچ رہا ہے۔ ہم عالمی اداروں سے مسلسل قرضے لے رہے ہیں جن کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے ان قرضوں سے نجات کیسے ممکن ہوگی اس کا تو ضرور ایک میکینزم سامنے لانا چاہیئے۔ اس حکومت سے پہلے یہی لوگ اقتدار میں تھے لیکن ہم اس وقت بھی مقروض تھے اور آج بھی ہیں۔ ہم اس وقت تک اپنی کایا نہیں پلٹ سکتے جس وقت تک ہم کریڈٹ لینے والی یہ بری عادت ختم نہیں کردیتے۔ ذاتیات پر آکر اجتماعی مسائل کا حل کھبی بھی نہیں ڈھونڈا جاسکتا۔
یہ بات ظاہر ہے دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ حکومت مہنگائی ختم کرنے میں ناکام ہے اور اوپر سے بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان اور بھی مایوس بن رہےہیں۔ وقت سات عشروں پر محیط ہے اور المیہ صرف یہ ہے کہ نظریات کا پرچار ہی ہورہا ہے۔ نظریہ کیا ہے اور اس کو کس طرح دوسروں کے ذہن میں ٹھونسا جاتا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم۔ پاکستان کا سفر بہرحال جاری ہے لیکن کہاں تک کس کس نے ساتھ نبھانا ہے یہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔