Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wisal Ahmad
  4. Likhne Ka Safar

Likhne Ka Safar

لکھنے کا سفر‎‎

اِنسان چاہتا ہے کہ وہ کامیاب ہو اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے انسان کو محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامیاب انسان دنیا میں سب کچھ کر سکتا ہے اور اپنے زوربازو پر پختہ یقین بھی رکھتا ہے کہ میں نے یہ کام کرنا ہے جو میرا ہدف ہے۔ کامیابی کے لیے غصیلے پن کی بالکل ضرورت نہیں ہے اور کامیابی تب ملتی ہے جب آپ کا لہجہ نرم، اخلاق شائستہ اور باکمال اوصاف رکھنے والے آدمی ہو۔ حماد صافی نام سُنا ہو گا وہ ایک صحافی ہے اور بہت ہی چھوٹا ہے لیکن چھوٹی عمر میں انہوں نے ایک بڑا نام پیدا کیا اور وہ نام اسی وجہ سے کہ ایک تو مسلسل شبانہ روز محنت اور دوسری اہم بات اقبال کے ساتھ حد درجہ محبت وعشق ہیں۔

دنیا میں جس کو اپنا آئیڈیل بنایا تو اس کی ہی پیروی کرنی ہو گی تاکہ اس بندے کی طرح آپ بھی ہو۔ علامہ اقبال نے لوگوں کے اندر بیداری اپنی شاعری سے پیدا کی تھی اور لوگوں کے اندر جذبہ اخوت، ملک سے محبت اور آپس میں اتفاق واتحاد کی تعلیم دیتے بھی رہے اور خود ہی اس کی پیروکار رہے اور آج ہم اس کو 'شاعر مشرق' کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ حماد صافی کو میں حیران تھا کہ وہ کس طرح تحاریر لکھتے ہیں ایک چھوٹے بچے کو دیکھیں اور اس کی تفکرانہ انداز کو دیکھیں۔ اب تو حماد صافی بڑا ہو گیا لیکن جب چھوٹا تھا لوگ ننھا پروفیسر کہتے تھے اور پروگرامز میں شرکت کی دعوت بھی حماد صافی کو دیتے تھے۔

ایک مرتبہ میری ملاقات بھی حماد صافی صاحب کےساتھ ہوئی اور میں نے وہ تمام اوصاف اس ننھے پروفیسر میں پائےجو لوگ کہتے تھے۔ پروقار محافل میں وہ جاتے ہیں تو ڈھیر ساری محبتیں اور چاہتیں اپنی ساتھ لے کر واپس لوٹا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نوجوانی کی عمر میں انسان سب کچھ کر پاتا ہے اگر یہ نوجوان اپنے آپ کو پہچان لیں۔ کیونکہ اس عمر میں انسان کا دماغ ایک مقناطیس کی طرح کام کرتاہے۔ اگر آپ اچھی کاموں میں حصہ لیتے ہیں تو آپ سے اچھے کام سرزد ہو گا اگر آپ غلط اور بری محافل میں رہتے ہو تو یقینا وہ اثرارت آپ کے اندر پائیں گے۔

کلاس نہم میں جب میں تھاتو سوچتا تھا کہ میں نے شہباز اخبار کے لیے کالم لکھنا ہے اور ساتھ یہ واثق ارادہ بھی کیا کہ میں نے اس کام کو ضرور کرنا ہے اور اس کو پس پشت ڈالنا نہیں ہے۔ پہلے طریقہ کار آتا نہیں کیونکہ میں ناآشنا تھا اور یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح لکھنا ہے۔ پین اور کاپی کو لے کر لکھنا یا موبائیل ہی کے اندر موضوع کو احاطہِ تحریر میں لانا ۔ بہرکیف مختلف لوگوں نے روابط رکھے اور تجربہ کار کالم نگاروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں تو ان لوگوں نے یہ بات بتائی کہ آپ نے ای میل کے اندر کالم لکھنا ہے اور پھر اخبار کی ای میل پر ارسال کرنا ہے۔

شہباز کا ای میل لے کر کالم لکھا لیکن الفاظ کاصحیح استعمال نہیں کیا۔ محاورات کو بھی نہیں دیکھا، الفاظ کی ملاوٹ میں غلطیاں تھیں اور جملوں کو آپس میں ملانے کی بھی بےشمار غلطیاں اس کالم میں موجود تھیں۔ ایڈیٹوریل پیج کے انچارج صاحب نے جب کالم پڑھا اور پتہ چلا کہ مجھ ناچیز کی کالم میں غلطیاں بہت ہی زیادہ ہیں تو کال کی اور کال کو اٹھاتے ہی دل میں یہ سوال اٹھا کہ بھائی نے کال کی اچھی خوشخبری سنانے کے لئے۔ لیکن خلاف توقع اس وقت یہ ہوا کہ انہوں نے بتایا کہ آپ کی کالم میں غلطیاں ہیں اور آپ کو پڑھنے کی اشد ضرورت ہیں۔ لیکن جناب فہیم صاحب کے ساتھ میں یہ ضد کر رہا تھا کہ آپ اس کالم کو ضرور لگائیں وہ کہتے نہیں یہ کالم لگانے کے قابل ہے ہی نہیں جب آپ اچھی تحریر لکھیں گے تو ہم حوصلہ افزائی بھی کریں گے اور کالم بھی اخبار میں لگائیں گے۔

انہوں نے کالم نگاری کے بارے میں انتہائی دلچسپ باتیں کیں جو آج تک میرےذہن میں ہے اور ساتھ میں انہوں نے ایک بڑی دلچسپ بات یہ بھی کہی تھی آپ نے مسلسل تگ ودو کرنا ہے آپ دیکھیں گے کہ ایک دن آپ بڑے کالم نگار بن جائیں گے۔ میں نے اس کی تمام باتوں کے لئے دل کے دریچے کھول کر کے اس کو جگہ دی اور آج تک وہ مجھے یاد ہیں۔ جب کرونا آیا تو زندگی متاثر ہوئی اور لوگوں کے معمولات میں بھی تبدیلیاں آئیں تو میں سوچنے لگا کہ اپنا وقت کیوں ضائع کروں۔ باہر گھر سے نکلنا نہیں ہے گھر پر ہی رہنا ہے سکولز بند ہیں مدارس بند ہیں نیز ہر جگہ بند ہیں تو کیوں نا ایک نئے سلسلہ کا آغاز کروں جو میرے لیے مستقبل میں بھی اور اب بھی فائدہ دےگا اور وہ سلسلہ کالم نگاری کا تھا۔

میرے ساتھ فیس بک پر ایک دوست ایڈ ہے جس کا نام حافظ عمیر حنفی صاحب ہے وہ روزنامہ پاکستان اور اوصاف کے لئے کالمز لکھتے ہیں۔ ایک دن رابطہ ہوا کہنے لگے ' کہ آپ نے اگر حقیقت میں کالم نگار بننا ہے اور اسی فِیلڈ میں دلچسپی ہیں تو آپ نے مطالعہ کو چھوڑنا نہیں اور کالم نگاروں کی کالمز پڑھنا بھی بھولنا نہیں۔ اپنی تنظیم پاسبان بزم قلم کے حوالے سے بھی بتایا کہ اس میں آپ کو جگہ ملے گی جب اپ مسلسل محنت کریں گے اور شناختی کارڈ بنائیں گے۔ یہ بات میرے لیے اعزاز سے کمی نہیں تھی۔ ڈھیر ساری دعائیں سے نکلیں اور آخر میں فون کاٹ دیا۔ اس کے بعد میں روزانہ آٹھ یا دس کالمز پڑھتا تھا جس میں ملک کے نامور لکھاری شامل تھیں اب بھی میں اسی روٹین کے مطابق ہڑھتا رہتا ہوں۔

عطاء الحق قاسمی صاحب اور انصار عباسی صاحب کی لکھائی سے متاثر ہو کر ان دو عظیم شخصیات کو اپنا پسندیدہ کالم نگار بنایا۔ جنگ اخبار میں جب بھی ان کا کالم چھپتاتو میں ضرور پڑھ لیا کرتا تھا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔ اس کے بعد میں نے لکھائی میں تاخیر کا سوچا اور ذہن میں یہ خیال آیا کہ اب میں نے لکھنا نہیں پڑھنا ہے تاکہ لکھائی میں بہتری آجائے۔ مسلسل کتابوں سے وابستہ رہا اور خاص کر پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کی کتابوں سے مستفید ہوتا رہا۔ مختلف مکاتب فکر کی مصنفوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اب بھی زیر مطالعہ ہیں۔

چند دنوں پہلے جناب فہیم صاحب کے ساتھ رابطہ ہوا اور میں لکھنے لگا کہ لکھائی میں بہتری آئی ہے یا نہیں تو وہ کہنے لگے کہ بالکل لکھائی میں تبدیلی آئی ہے اور مزید بھی بہتری کےلئے کوشش کریں۔ اسی اثناء میں کالم جب" آئین" اخبار میں چھپ گیا تو خوشی کی انتہا نہ رہی اور ڈھیر ساری دعائیں، فہیم صاحب کے لئے اس کے بعد دوستوں کے لیے اور خاص کر کالم نگار دوستوں کے لیے کیونکہ ہر موڑ پر رہنمائی کی اور ساتھ نہیں چھوڑا۔ ہر بات میں میرے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔

Check Also

Aik Mehfil e Milad Ka Aankhon Dekha Haal

By Aqsa Gillani