Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wisal Ahmad
  4. Kya Maeeshat Hi Zaroori Hai?

Kya Maeeshat Hi Zaroori Hai?

کیا معیشت ہی ضروری ہے؟

بائی پولر دنیا کے زمانے میں ایک سوشلسٹ روسی پاکستان کے دورے پر آیا اور پورے ملک میں گھوما پھرا۔ مذہبی رواداری کی خاطر ہر مکتب فکر کی عبادت گاہ کا دورہ کیا اور ہر مذہب کے عالم سے ملا۔ ذہنی تشنگی چونکہ اس میں بدرجہ اتم موجود تھی تبھی ہر چیز کا بغور جائزہ لے کر غور و فکر کر رہا تھا۔ جیسے ہی ائیر پورٹ پر پاکستانی حکام اس کوالوداع کہنے آئے اچانک ہی کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔

کسی نے پوچھا۔ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں یوں اچانک کون سی ایسی بڑی تبدیلی رونما ہوئی جو آپ کو مذہب تبدیل کرنا پڑا اور داخل بھی ہوئے تو اسلام میں۔ اس روسی کا جواب انتہائی زبردست تھا۔ کہنے لگا میں نے پاکستان میں حکمران سے لے کر عام انسان تک سب کا جائزہ لیا یہاں تک کہ وزیراعظم سے لے کر پٹواری تک ہر اس انسان کو پرکھا جو پاکستانی ہونے کا زبردست دعویٰ کر رہا تھا تھا لیکن میں نے کسی میں بھی پاکستان کے لئے حقیقی خلوص اور ترقی کا وہ جذبہ کارفرما نہیں دیکھا جس کے صرف دعوے کئے جارہے ہیں۔ اس منظرنامے کو دیکھنے کے بعد مجھے یقین آیا کہ واقعی ایک ذات موجود ہے جس نے ہمیں پیدا بھی کیا ہے اور جو ہمارے معاملات کی دیکھ بھال بھی کر رہا ہے۔ پاکستان کی حالت دیکھنے کے بعد تو یقین ہوچلا کہ واقعی اللہ موجود ہے اور وہ ہی اس ملک کو چلا اور بچا رہا ہے۔

روسی تو دائرہ اسلام میں داخل ہوا لیکن اپنے پیچھے ایک ایسا سوال چھوڑ گیا جس کا جواب عشرے گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی نہ دے سکا۔ ہمارے حالات کیوں نہیں بدلتے۔ یہ سوال جس سے بھی آپ پوچھیں گے آپ پھر سنیں گے کہ ملک کی معیشت ٹھیک نہیں تو حالات کیسے ٹھیک ہوں۔

کیا معیشت ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سارے ایسے بھی ہیں جو بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں کہ جیسے ہی معیشت کا پہیّہ چل پڑے گا ملک میں امن و امان بھی ہوجائیگا اور یہ جو بنیادی غلط فہمیاں ہیں یہ بھی ختم ہوجائیں گی۔ انسانوں میں جو افضل تھے اس نے جب بگاڑ کے خلاف کمر کسی تھی تو کیا اس وقت موجود سپر پاورز سے کاروباری ڈیل کی تھی۔ کیسے ممکن ہے بگاڑ کا ختم ہونا جب چودہ سال کی معصوم بچیوں کو ذدوکوب کیا جاتا ہو۔ جب پرکھنے کے پیمانے ہی غلط ہوں۔ چاروں طرف کارخانے اگر لگ جائیں تو کیا اخلاقیات کا سبق ہم خود بہ خود سیکھ پائیں گے۔ دنیا کے بڑے بڑے فرمز اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تو کیا ہمارے اندر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ از خود آجائیگا۔ کیا ہماری جان دھرنوں سے چوٹ جائیگی۔

میری طرح جواب آپ کا بھی نفی ہی میں ہوگا۔ اخلاقیات اور برداشت کے بغیر یہ سوچنا بھی گناہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا کوئی حل ڈھونڈ نکالیں گے۔ جنگ خندق میں پیٹ کے ساتھ پتھر اللہ کے محبوب نے باندھے تھے تبھی تو برداشت پوری قوم کا شیوہ بن گیا تھا۔ بھوک اور خالی پیٹ کے ساتھ دشمنوں کے خلاف صف آراء انسان اپنا موقف منوارہے تھے کمزورمعیشت کا رونا نہیں رو رہے تھے۔ احد کے میدان میں محبوب خدا پر حملہ ہوجاتا ہے لیکن برداشت کا مادہ تو دیکھیے دشمنوں تک کو معاف کردیتے ہیں۔ مکہ کی گلیوں میں گند مسلسل پھینکا جاتا ہے اور جب وقفہ ہوتا ہے تو گند پھینکنے والے کے گھر تشریف لاکر اس سے خیریت پوچھی جاتی ہے۔

طائف میں لہولہان ہوجاتا ہے لیکن مخالفین کو دعائیں دیتا ہے تبھی جاکر ایک ایسے معاشرے کی بنیاد ڈال دیتا ہے کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سوچنے کی معمولی ہمّت کیجیے کیا محبوب خدا نے کھبی معیشت کی اتنی فکر کی تھی جتنی ہم کر رہے ہیں۔ معیشت ہی کےنام پر ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف سڑکوں پر نکل کر ملک کی پوری کھایا ہی پلٹ دیتے ہیں۔ ہماری تاریخ اتنی طویل بھی تو نہیں کیا کہیں پر موجود ہے کہ کسی نے اخلاقیات اور برداشت کے لئے بھی طویل دھرنے دئیے ہوں۔

یہ ملک کے بڑے کیسی خوبصورتی کے ساتھ عوام کو ورغلاتے ہیں ورنہ ترقی تو پوشیدہ ہے اخلاقیات اور برداشت میں۔ یہ دو صفات جہاں بھی آجاتی ہیں انسانوں کی بستیوں پر انسانوں ہی کا راج شروع ہوجاتا ہے۔ یہ اگر ٹن ڈاؤننگ سٹریٹ کے اندر ہوں یا پھر وائٹ ہاؤس کے اندر جہاں بھی ہوں انسانوں کو انسانوں ہی سے زندگی کے بنیادی حقوق ملنا پھر شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ دھرنے اور احتجاجی سیاست بگاڑ ہی کی طرف قوم کو لے جاتا ہے۔ اخلاقیات اور برداشت پر کام کیجیے سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا۔

Check Also

Bohran Ya Istehkam

By Hameed Ullah Bhatti