Na Rakha Ghair Se Apna Kaam
نہ رکھا غیر سے کام
جنازے کا ایسا منظر شاید ہی کسی نے کبھی دیکھا ہو گا۔ لاہور شہر کی ایک ایک اینٹ تا قیامت گواہ رہے گی کہ مینار پاکستان گراونڈ، شاہی مسجد، شاہی قلعہ، ملحقہ سڑکیں اور پل، سب کے سب انسانوں سے بھر چکے تھے۔ کئی کلومیٹر پر پھیلا انسانوں کا ہجوم ہی ہجوم تھا اور سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے لوگوں کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب امڈ رہا تھا۔ پورا لاہور شہر تو موجود تھا ہی، دوسرے شہروں سے بھی قافلے کے قافلے آ رہے تھے اور پہلے سے موجود لاکھوں انسانوں کی بھیڑ میں مسلسل اضافہ کر رہے تھے۔
قارئین کرام، یہ منظر خاتم النبیین، تاجدار دو عالم، شافع محشر، امام الانبیاء، حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ایک سچے عاشق اور ان کی عزت و حرمت کے پہرہ دار، "تحریک لبیک پاکستان" کے سربراہ، حافظ القرآن، شیخ الحدیث "حضرت علامہ خادم حسین رضوی صاحب" کے جنازے کا تھا، جس کو پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اللہ رب العزت نے دکھا دیا کہ وہ کتنا عظیم رب ہے اور جو کوئی بھی اس کے پیارے حبیب ﷺ کی عزت پر پہرہ دیتا ہے، اسے کس قدر اعزاز و اکرام کے ساتھ اپنے پاس بلاتا ہے۔
علامہ صاحب نہ تو کوئی سیاست دان تھے، نہ ہی پاکستان کے صدر تھے، نہ وزیراعظم تھے، نہ کوئی بین الاقومی لیڈر، وہ تو ایک عام سے انسان تھے لیکن جو چیز انہیں دوسرے عام انسانوں سے ممتاز بنا گئی، وہ عشق رسول ﷺ تھا، جس کا انہوں نے ساری زندگی درس بھی دیا اور اس کی خاطر لڑنے مرنے پر بھی آمادہ ہوئے۔
قارئین کرام کو نومبر 2017ء یاد ہو گا، جب پاکستان کی "حکومت" نے "الیکشن بل 2017" کے حلف نامے میں تبدیلی کرتے ہوئے اس سے وہ پوری لائن ہی حذف کر دی تھی جس میں یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ یہ تبدیلی اس وقت کے وفاقی وزیر قانون "زاہد حامد" نے وزیراعظم "میاں محمد نواز شریف" کے کہنے پر کی تھی۔ اس بات پر "تحریک لبیک پاکستان" کے کارکنان نے "علامہ خادم حسین رضوی صاحب" کی صدارت میں لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا اور فیض آباد انٹرچینج کو بلاک کر دیا۔ 8 نومبر، 2017ء تا 18 نومبر، 2017ء تک جاری رہنے والے اس دھرنے ہی کا نتیجہ تھا کہ وفاقی حکومت کو "الیکشن بل 2017" کے حلف نامے کو واپس اپنی پہلی شکل میں بحال کرنا پڑا اور وزیر قانون "زاہد حامد" کو استعفی دینا پڑا۔ اس دھرنے کے دوران پولیس سے ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں تقریباً 2000 لوگ زخمی ہوئے تھے اور 400 کے قریب جان کی بازی ہار گئے تھے، لیکن "علامہ خادم حسین رضوی صاحب" اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ناموس کو بحال کر کے ہی دم لیا۔
"علامہ خادم حسین رضوی صاحب" نے اپنی ساری زندگی ناموس رسالت ﷺ کے دفاع کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ انہیں اردو اور پنجابی زبان کے علاوہ فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا اور علامہ اقبال کی شاعری انہیں ازبر تھی۔ اپنی تقاریر میں جوشیلے انداز سے ہمیشہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عزت اور حرمت کا دفاع کرتے تھے۔ ایک طرف پوری قوم اور خصوصاً نوجوانوں کو محمد عربی ﷺ کی غلامی میں آنے کی دعوت اور ترغیب دیتے تو دوسری طرف پوری امت مسلمہ کے بے حس اور بیغیرت حکمرانوں کو گستاخی رسول ﷺ کے معاملے پر خاموش رہنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ عشق نبی ﷺ میں سرکاری نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے لیکن کبھی بھی اپنے عزم اور ارادے سے پیچھے نہیں ہٹے۔
"لبیک یارسول ﷲ" کا نعرہ ان کی پہچان بن گیا تھا اور اسی نعرے کی بدولت لاکھوں لوگ ان کے عقیدت مند بنے۔ یہ عشق رسول ﷺ ہی تھا جس کی روشنی سے انہوں نے لاکھوں دلوں کو تسخیر کیا۔ ان کی گفتگو میں کڑواہٹ اور لہجے میں درشتگی پائی جاتی تھی لیکن صرف اس وقت جب معاملہ سرکار دو عالم ﷺ کی عزت و ناموس پر ڈاکہ پڑنے کا ہوتا تھا۔ عشق نبی ﷺ میں اس قدر سرشار تھے کہ توہین رسالت ﷺ کا ہلکا سا ارتکاب کرنے والوں کو بھی "کتے" اور "سور" کے القابات سے نوازتے تھے۔ اس بات پر ان پر کافی تنقید بھی ہوتی تھی لیکن وہ اپنی بات اور عزم پر اڑے رہے۔ ایک بار کسی نے مشورہ دیا، "علامہ صاحب، آپ تقریر کے دوران گالم گلوچ سے پرہیز کیوں نہیں کرتے؟" تو ہنس کر بڑے سادہ انداز میں فرمایا، "اوئے جھلیا، تینوں نئیں پتا، میرے توں برداشت نئیں ہوندا جدوں کوئی میرے سرکار دے بارے کچھ الٹی سدھی بکواس کر دا"۔ (اوئے پاگل، تمہیں نہیں پتا، مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا جب کوئی میرے نبی کریم ﷺ کے بارے میں کچھ الٹا سیدھا بولتا ہے)۔
بیشک اس بات سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے اور یہ بات اخلاقی طور پر جائز بھی نہیں ہے کہ ایک عالم دین مسجد کے منبر پر بیٹھ کر گالی دے، لیکن میری اپنی ذاتی رائے اس بارے میں یہ ہے کہ گالی تو ایک معمولی سی چیز ہے، جب معاملہ سرکار دو عالم ﷺ کی عزت کا ہو اور کوئی بھی دو ٹکے کا جاہل آپ ﷺ کی شان میں معمولی سے معمولی گستاخی بھی کرنے کی جسارت کرے، تو میری رائے میں اس بدذات انسان کا سر کاٹ کر اس کو چوراہے پر ننگا لٹکا کر اس پر گلی کے پالتو کتے چھوڑے جائیں، جو اس بدذات کی ہڈیاں تک نوچ ڈالیں۔ یا پھر اس کو پوری قوم کے سامنے زندہ آگ میں ڈال دیا جائے، تاکہ دوبارہ کوئی آقا دو جہاں ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے کی جرأت نہ کر پائے۔
میری اس رائے سے قارئین کرام کو اختلاف کا حق حاصل ہے لیکن میں یہ سب "علامہ خادم حسین رضوی صاحب" کی طرح دل کے درد سے کہہ رہا ہوں کیونکہ یہ کائنات تو وجود میں آئی ہی نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بدولت ہے۔ آج یہ دنیا اگر قائم ہے، ہم زندہ ہیں، نظام کائنات چل رہا ہے، تو یہ صرف اور صرف سردار دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی وجہ سے ہے۔ بحیثیت ایک مسلمان کے، ہم سب کا اس بات پر الحمد لله کامل ایمان ہے۔ بقول شاعر
کتاب ہستی کے سرورق پر، جو نام احمد ﷺ رقم نہ ہوتا
تو نقش ہستی ابھر نہ سکتا، وجود لوح و قلم نہ ہوتا
قارئین کرام، یہ کالم لکھتے ہوئے ایک سوال بار بار میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے چلا رہا ہے کہ کیا پورے پاکستان میں یہ ذمہ داری صرف اور صرف پنڈی گھیب، ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والے "علامہ خادم حسین رضوی صاحب" کی تھی کہ وہ ٹانگوں سے معذور ہوتے ہوئے بھی نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ناموس کا دفاع کر رہے تھے؟ جو ساتھی ان کے ساتھ اس مبارک سفر میں شریک تھے، کیا ان ساتھیوں کے علاوہ باقی پوری قوم سو رہی تھی اور اب تک سو رہی ہے؟ علامہ صاحب چیختے رہے، چلاتے رہے لیکن کسی کو ان کی بات سمجھ نہیں آئی۔ ہاں ایک کام ہماری قوم نے ضرور کیا اور وہ ہے تنقید۔ اگر کسی نے کچھ کیا تو صرف تنقید کی کیونکہ اس کے علاوہ ہماری قوم کو اور آتا ہی کیا ہے؟
جن محترم حضرات کو علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی سوچ و فکر اور طریقے سے اختلاف تھا اور اب تک ہے، ان تمام محترم حضرات سے میرے چند سوالات ہیں۔ کیا اسلامی ریاست میں عاشق رسول ﷺ کو پھانسی دی جاتی ہے اور گستاخ رسول ﷺ کو سپیشل جہاز میں سوار کر کے کینیڈا بھیجا جاتا ہے؟ کیا اسلامی ریاست میں وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عزت اور ناموس پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے؟ کیا اسلامی ریاست میں اللہ رب العزت کے دین کی مبارک محنت کرنے والوں اور اللہ کے رسول ﷺ کا نام لینے والوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں؟ کیا اسلامی ریاست میں ناموس رسالت ﷺ کا تحفظ کرنے والوں پر ریاست کی طرف سے مقدمات قائم ہوتے ہیں؟ کیا اسلامی ریاست میں 10 اور 12 سال کی بچیوں کو ننگے لباس پہنا کر ٹیلی ویژن پر نچایا جاتا ہے؟ کیا اسلامی ریاست میں وزیراعظم اور اس کے وزراء پانی کی جگہ شراب پیتے ہیں؟ کیا اسلامی ریاست میں "حریم شاہ" آدھی رات کے وقت ننگے لباس میں ننگے پاؤں پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے کو لات مارتی ہے؟ وہ وہاں کر کیا رہی تھی، اس کا جواب آپ "سلیکٹڈ وزیراعظم" سے پوچھ لیں، شاید وہ ہی اس کا "تسلی بخش" جواب دے پائے، مجھے آپ صرف اتنا بتا دیں کہ جو سوال میں نے پوچھے ہیں، اس کا جواب ہے آپ کے پاس؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، کیا یہ سب کسی اسلامی ریاست میں ہونا ممکن ہے؟
"علامہ خادم حسین رضوی صاحب" بروز جمعرات، 19 نومبر، 2020ء کو اس دنیا کو خیرباد کہہ گئے۔ ان کا جنازہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لاہور کا مینار پاکستان گراونڈ پورے کا پورا بھر گیا۔ جگہ نہ ہونے کے سبب جنازے میں شرکت کرنے والوں کیلئے شاہی مسجد کو کھولنا پڑا۔ شاہی قلعے پر بھی لوگ موجود تھے اور تمام سڑکیں اور پل بھر چکے تھے۔ اس قدر جم غفیر تھا کہ میت کو جنازے کی جگہ تک پہنچانے میں تقریباً 5 گھنٹے لگ گئے تھے۔ علامہ صاحب کے جسد خاکی پر راستے میں عام عوام، طلبہ، پولیس، وکلاء اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرف سے گل پاشی کی گئی۔
قارئین کرام، علامہ صاحب تو عزتوں کے تاج سر پر سجائے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں چلے گئے لیکن ہمارے لیئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئے کہ اگر قیامت والے دن اللہ رب العزت نے ہم سے پوچھ لیا کہ ہم نے اس کے دین کیلئے کیا کیا قربانیاں دیں، اور رسول اللہ ﷺ نے پوچھ لیا کہ بتاؤ، میرے دین اور میری عزت و ناموس کیلئے تم نے کتنے لوگوں سے جنگ کی اور کس کس کی مخالفت مول لی، تو ہم اللہ رب العزت اور اس کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اگر ہم واقعی سرکار دو عالم ﷺ سے محبت کے دعویدار ہیں تو آئیں آج اپنے ساتھ یہ عہد کریں کہ یہ پوری دنیا ہی مخالف کیوں نہ کھڑی ہو جائے، ہم آقا کریم ﷺ کی عزت و ناموس کیلئے پوری دنیا سے لڑیں گے۔ یہی ہماری کامیابی ہے اور انشاء اللہ یہی راستہ ہمیں سیدھا سردار دو جہاں ﷺ کی شفاعت کی طرف لے کر جائے گا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ "علامہ خادم حسین رضوی صاحب" کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے تاکہ ہم بھی ان کی طرح یہ کہتے کہتے اس دنیا سے رخصت ہوں۔
انہیں جانا، انہیں مانا، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد، میں دنیا سے مسلمان گیا