Justice Sajjad Ali Shah
جسٹس سجاد علی شاہ
افتخار چوہدری، ثاقب نثار اور اب فاروق بندیال پاکستان کی عدالتوں کے کوئی پہلے سیاسی جج نہیں ہیں بلکہ جسٹس منیر سے لے کر مولوی مشتاق تک عدلیہ کی تاریخ سیاسی ججوں سے بھری ہوئی ہے، انہی ججوں نے پاکستان کے ہر ملٹری ڈکٹیٹر کو آئینی طور پر اقتدار کی مسند پر بٹھایا، عوام کے منتخب نمائندوں کی اسمبلی کے اختیارات کو کم کرنے کے شوقین ایک جج کا نام جسٹس سجاد علی شاہ تھا۔
جسٹس سجاد علی شاہ کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ شہید محترمہ بےنظیر بھٹو اور نواز شریف نے 1997 میں 58 ٹوبی کے متنازع ترین قانون کو ختم کرکے صدر مملکت کے اسمبلی کی تحلیل کے اختیارات کم کئے تو جسٹس سجاد علی شاہ بپھر گیا اور اس نے پارلیمان میں عوامی نمائندوں کی قانون سازی کو اپنے فیصلے سے غیر قانونی طور پر ختم کر دیا۔
جب سندھ کے علاقے ٹنڈو بہاول میں مائی جندو کے گھرانے کے نو افراد کے قتل کے جرم میں میجر ارشد جمیل کو پھانسی کے فیصلے کے خلاف اس مجرم کی رحم کی اپیل کو پی پی پی دورِ حکومت میں مسترد کیا گیا تو اس اقدام کے فوری بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور ابھی لاڑکانہ کے المرتضیٰ ہاؤس میں میر مرتضیٰ بھٹو شہید کا جنازہ رکھا تھا اور اسی وقت جمعہ کے دن عدالتیں کھل گئیں اور جسٹس سجاد علی شاہ نے صدر فاروق لغاری کے متنازع ریفرنس کو چھٹی کے دن سماعت کے لئے منظور کر لیا۔
انتظامی اور حکومتی امور میں جسٹس سجاد علی شاہ کی غیر قانونی مداخلت کے خلاف جب سیاست دانوں نے مزاحمت کی تو اس سیاسی جج نے آرمی چیف کو خط لکھ دیا کہ حکومت اس کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر رہی، اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے جسٹس سجاد علی شاہ کو جواب دیا کہ وہ وفاقی حکومت کے احکامات کی تعمیل کریں گے اور یوں آج کے عمر عطاء بندیال کا 25 سال پرانا یہ ورژن بری طرح رسوا ہوا۔
جسٹس سجاد علی شاہ ایک ڈکٹیٹر کا روپ دھار چکا تھا مگر 20 مارچ کے ایک اہم فیصلے کے بعد یہ خود اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں گر گیا، جسٹس سجاد علی شاہ نے فیصلہ دیا کہ جونئیر ججوں کو ترقی دے کر سینئر جج نہیں بنایا جا سکتا، کہنے کو یہ فیصلہ اصولی تھا مگر اس کا ایک سیاسی پہلو سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج کی ترقی کو روکنا تھا بہرحال سینیارٹی کے اس فیصلے کے بعد جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف سپریم کورٹ کے تمام جج اکھٹے ہو گئے اور انہوں نے کوئٹہ میں ایک فیصلہ دیا کہ چونکہ جسٹس سجاد علی شاہ بھی ایک جونئیر جج تھا تو اپنے ہی فیصلے کے تحت یہ چیف جسٹس کے عہدے پر نہیں رہ سکتا اور یوں اس خبطی جج کا قصہ تمام ہوا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل جج جسٹس مولوی مشتاق کا ایسا عبرت ناک انجام ہوا کہ اس کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا اور سب اس کی میت چھوڑ کر بھاگ گئے، ڈیم فنڈ کے اربوں روپے جمع کرکے ان کی انوسٹمنٹ کرنے والے ثاقب نثار کو پوری قوم تھو تھو کرتی ہے، افتخار چوہدری بھی نفرت کی علامت بن چکا ہے، جسٹس سجاد علی شاہ بھی رسوائیوں کی دلدل میں ڈوب کر گمنام ہوگیا، خلق خدا کی حاکمیت کو چیلنج کرنے والے موجودہ سیاسی ججوں کی نئی لاٹ کا بھی یہی حشر ہونا ہے کیونکہ عزت اور مرتبہ صرف عوام کا ووٹ طے کرتا ہے، چند برسوں کے لئے عہدوں پر براجمان ہونے والے ٹکے ٹکے کے سرکاری ملازم عوام پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کر سکتے۔