The Alfred Hitchcock Hour, Final Escape 1964
دی الفریڈ ہچکوک آور، فائنل اسکیپ 1964
کروڑ پتی مجرم کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اور اس سزا پر عملدرآمد کے لیے اسے شہر سے دور دراز ایک گمنام جزیرے کی جیل میں قید کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی دولت یا اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ کروڑ پتی مجرم نے اس جزیرے پر ہی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا، اس کے لیے اس نے جیل کے سنتری کو رشوت دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی قیمت پر جیل کے جزیرے سے باہر وہ فرار ہو سکے۔
سنتری نے اسے بتایا کہ یہاں پر حفاظتی اقدامات بہت سخت ہیں اور کوئی بھی قیدی جزیرے سے باہر نہیں نکل سکتا سوائے ایک صورت کے، جو کہ موت ہے۔ لیکن لاکھوں کے لالچ نے سنتری کو قیدی کا ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا۔ اس کے لیے سنتری نے ایک عجیب و غریب طریقہ نکالا اور اس کروڑ پتی مجرم کو بتا دیا، جو درج ذیل ہے۔
"سنو، جیل کے جزیرے سے صرف ایک چیز جو بغیر کسی حفاظتی انتظامات اور تفتیش کے باہر آتی ہے وہ ہے مُردوں کا تابوت۔ جب کبھی کسی کو پھانسی دے دی جائے یا وہ طبعی موت مر جائے تو ان کی لاشوں کو مردہ خانے سے تابوت میں ڈال کر بحری جہاز پر منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں پر غیر مسلح چند محافظوں کی نگرانی میں کچھ سادہ رسومات ادا کرنے کے بعد ان تابوتوں کو قبرستان میں دفن کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، وہ محافظ ان تابوتوں کو بحری جہاز سے خشکی پر منتقل کرنے اور پھر دفنانے کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔
اس کارروائی پر روزانہ صبح دس بجے اس صورت میں عملدرآمد کیا جاتا ہے کہ وہاں مردہ خانے میں مردہ اور تابوت موجود ہوں، آپ کے فرار کا واحد حل یہ ہے کہ اختتامی لمحات سے پہلے آپ کسی طرح کسی ایک تابوت میں پہلے سے مردہ شخص کے ساتھ لیٹ جائیں، معمول کی کارروائی اختتام پذیر ہو، بحری جہاز سے آپ زمین اور زمین سے قبرستان پہنچ جائیں، وہاں جا کر تابوت کو دفن کر دیا جائے۔
اور جیسے ہی عملہ وہاں سے واپسی کے لیے نکلے تو میں ہنگامی رخصت لے کر آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہاں پہنچ کر آپ کو قبر اور تابوت سے باہر نکال لوں۔ پھر آپ مجھے وہ رقم دے دیں جس پر ہم نے اتفاق کیا ہے، اور میں چھٹی کا وقت ختم ہوتے ہی واپس جیل چلا جاؤں گا اور آپ غائب ہو جائیں گے یوں آپ کی گمشدگی ایک معمہ ہی رہے گی، اور اس معمے سے ہم دونوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
کروڑ پتی نے سوچا کہ یہ ایک جنونی قسم کا منصوبہ ہے، لیکن پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے یہ پھر بھی ہزار درجے بہتر ہے۔ کروڑ پتی نے تگڑی رقم دینے کا وعدہ کیا اور پھر دونوں نے اسی طریقہ کار پر اتفاق کر لیا۔ سنتری کے منصوبے کے مطابق اس قیدی نے اتفاق کیا کہ وہ مردہ خانے میں چپکے سے جائے گا اگر وہ خوش قسمت رہا اور وہاں کسی کی موت واقع ہوگئی تو وہ اپنے آپ کو بائیں طرف کے پہلے نمبر والے تابوت میں بند کر لے گا جس کے اندر پہلے سے ایک لاش موجود ہوگی۔
اگلے دن حسب منصوبہ سنتری کے بتائے ہوئے رستے پر چلتے ہوئے وہ کروڑ پتی شخص مردہ خانے کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوگیا، وہاں مردہ خانے کے فرش پر دو تابوت رکھے ہوئے تھے، پہلے تو وہ تابوت میں کسی مردے کے ساتھ لیٹنے کے خیال سے گھبرا گیا لیکن ایک بار پھر زندہ رہنے کی جبلت اس عارضی خوف پر غالب آ گئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے احتیاط سے تابوت کو کھولا تاکہ لاش کو دیکھ کر خوفزدہ نہ ہو، اور اپنے آپ کو تیزی سے تابوت کے اندر مردے کے اوپر گرا دیا، اور اس وقت تک بے چینی اور پکڑے جانے کے خوف کے ساتھ وہ انتظار کرتا رہا جب تک کہ اس نے محافظوں کی آواز نہ سن لی، وہ تابوت کو جہاز کے عرشے پر لے جانے کے لیے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔
مردہ خانے سے لیکر جہاز پر پہنچنے تک اسے قدم بہ قدم جگہ کی تبدیلی کا احساس ہوتا رہا۔ جہاز کا لنگر اٹھنے سے لیکر پانی پر اس کی حرکت کو اس نے محسوس کیا، سمندری پانی کی مہک جب تک اس کے نتھنوں سے ٹکراتی رہی تب تک اسکا عدم تحفظ کا احساس برقرار رہا۔ جہاز ساحل پر پہنچ کر لنگر انداز ہوا، محافظوں نے کھینچ کر تابوت کو خشکی پر اتارا تو اس کے کانوں سے محافظوں کی گفتگو کے چند الفاظ ٹکرائے، وہ اس تابوت کے عجیب و غریب وزن کے بارے میں ایک دوسرے سے تبصرہ کر رہے تھے۔
وہ کہہ رہے تھے کہ اتنے وزنی تابوت سے زندگی میں پہلی دفعہ پالا پڑا ہے۔ اس گفتگو سے اس کروڑ پتی قیدی نے عجیب سا خوف اور تناؤ محسوس کیا، وہ ڈر گیا تھا کہ کہیں یہ محافظ اس تابوت کو کھول کر دیکھ ہی نہ لیں کہ اندر کیا ہے۔ لیکن یہ تناؤ اس وقت ختم ہوگیا جب اس نے ایک محافظ کو لطیفہ سناتے ہوئے سنا جس میں وہ زیادہ وزن والے قیدیوں کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مردہ خانے سے لیکر قبرستان پہنچنے تک شاید یہ پہلا لمحہ تھا جب اس نے تھوڑی سی راحت محسوس کی۔
اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ تابوت کو گڑھے میں اتارا جا رہا ہے، چند لمحوں بعد اسے تابوت کے اوپری حصے پر مٹی کے بکھرنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی، اور محافظوں کے بولنے کی آواز آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے ختم ہوگئی تھی۔ اور اب اس اندھیری قبر میں وہ ایک عجیب صورتحال سے دوچار تھا، انسانی لاش کے ساتھ تین میٹر کی گہرائی میں وہ زندہ دفن تھا، اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کے لیے سانس لینا دوبھر ہوتا جا رہا تھا۔
اس نے سوچا یہ بات درست ہے کہ وہ اس سنتری پر بھروسہ نہیں کرتا تھا، لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دولت سے محبت سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے اور وہ سنتری وعدے کے مطابق لاکھوں کی رقم لینے کے لیے دولت سے اپنی محبت کی بدولت ضرور آئے گا۔ انتظار طویل ہوتا جا رہا تھا۔ جسم پر پسینہ بہنے کا احساس یوں ہو رہا تھا جیسے ہزاروں چیونٹیاں دھیرے دھیرے رینگ رہی ہوں۔ سانسیں دھونکنی کی مانند تیز تیز چلنے لگی تھیں اور حبس سے دم گھٹ رہا تھا۔
خود کو مطمئن کرتے ہوئے وہ کہنے لگا، بس مزید دس منٹ کی بات ہے، اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اور وہ دوبارہ آزاد فضاؤں میں سانس لے گا اور ایک بار پھر روشنی دیکھے گا۔ سانس لینے میں دقت کے باعث اب وہ مسلسل کھانسنے لگا تھا۔ مزید دس منٹ گزر گئے۔ اس قبر میں آکسیجن ختم ہونے والی ہے، اور وہ سنتری ابھی تک نہیں آیا اسی سوچ میں تھا کہ اس نے بہت دور سے قدموں کی آہٹ سنی۔ ان آوازوں کے ساتھ ہی اس کی نبض تیز ہوگئی۔ ضرور یہ وہ سنتری ہی ہوگا۔ آخر وہ آ ہی گیا۔
آواز قریب پہنچ کر پھر دور ہوتی چلی گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے ہسٹیریا کا دورہ پڑ رہا ہے۔ اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے لاش حرکت کر رہی ہو۔ ساتھ ہی اس نے تصور میں دیکھا کہ اس کے نیچے دبا ہوا مردہ آدمی اس کی حالت پر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا ہے۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں ماچس کی ڈبیہ ہے اور تیلی سلگا کر وہ اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھ سکتا ہے کہ سنتری کے وعدے کے مطابق کتنا وقت گزر گیا تھا اور کتنا باقی ہے۔ اسے امید تھی کہ سنتری کے بتائے ہوئے وقت میں سے ابھی چند منٹ باقی ہوں گے۔
جب اس نے تیلی سلگائی تو آکسیجن کی کمی کے باعث مدھم سی روشنی نکلی۔ شعلے کو گھڑی کے قریب لا کر اس نے دیکھا تو پتا چلا کہ پینتالیس منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ گھڑی میں وقت دیکھ کر اب وہ حقیقی معنوں میں خوفزدہ ہو چکا تھا۔ ملگجی روشنی میں اسے محسوس ہوا کہ اس کا چہرہ مردے کے چہرے کے بالکل قریب ہے۔ اس نے خود سے سوال کیا، کیا مردہ شخص کا چہرہ دیکھنا اسے مزید خوف میں مبتلا کرے گا؟
تجسّس اور خوف کے ساتھ اس نے اپنی گردن موڑی، شعلے کو لاش کے چہرے کے قریب کیا اور دہشت کے مارے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی، مرنے سے پہلے اس نے دیکھا کہ یہ تو اس شخص کا چہرہ ہے جسے زندہ دیکھنے کی امید میں وہ یہاں زندہ دفن تھا۔ وہ اسی سنتری کی لاش تھی۔