Tehzeeb Aur Zamana Qabl Az Tehzib
تہذیب اور زمانہ قبل از تہذیب
تہذیب اور زمانہ قبل از تہذیب کی کوئی واضح تعریف نہ ہونے، زمانہ قبل از تہذیب اور قدیم تہذیبوں کے عروج پانے اور زوال پذیر ہونے کی درست و ہمہ گیر معلومات کے فقدان کے باعث کوئی بھی شخص محتاط اندازے کے سوا حتمی طور پر کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے۔ مگر پھر بھی دستیاب معلوم انسانی تاریخ میں قوموں یا انسانوں کی تہذیب و تمدن کے متعلق بہت کچھ ایسا تحقیقی علمی مواد ضرور ہے جس کی بنیاد پر ہم کسی قدر معاشروں اور قوموں کو گزشتہ تہذیبوں کے آئینے میں دیکھ، پرکھ سکتے ہیں۔
تہذیب، خالصاً معاشروں کے اپنے اندر سے بامعنی و بامقصد جنم لینے والے، نظریات، عقائد اور اقدار کے ایسے نظام کا نام ہے، جس میں سماج اپنے آگے بڑھنے کے طریقے کار طے کرتے ہوئے ترقی کے عمل کو رواں رکھتا ہے، دراصل تہذیب پر ہی انسانی معاشروں کی بقا کا دارومدار ہوتا ہے۔ تہذیب کے بے شمار مظاہر ہو سکتے ہیں، پیدائش سے موت تک کی انسانی زندگی اور زندگی کو حرارت بخشنے کے لیے لازمی قرار دیے جانے والے عناصر کے مرکب یا مجموعے کو بھی تہذیب گردانا جا سکتا ہے۔
ہر قوم نے اپنے آپ کو عروج دینے کے لیے مختلف تجربات کے بعد چند بے حد ضروری معیار مقرر کر لیے تھے، جنہیں ترقی کے لئے لازم و ملزوم تہذیبی ورثہ کا نام دیا گیا، تہذیبی ورثے کی حقیقی وارث قومیں اور سماج اپنے ارتقاء کے مراحل سے گزرتے ہوئے ہر صورت و ہر قیمت پر اپنے طے شدہ معیار زندگی پر قائم رہے، اور قائم رہنے کو ہی بقا گردانا گیا۔
قدیم تہذیبوں نے اپنے الگ تشخص کے لیے اپنے وضع کردہ تہذیبی اصولوں کے مطابق جس نظام کے خلاف سب سے زیادہ جدوجہد کی وہ انسان کی انسانی غلامی یا انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد ہے۔ کوئی بھی قوم ایسی نہیں گزری جو ہمیشہ سے آزاد رہی ہو، یا اس پر کسی دوسری قوم کا غلبہ یا قبضہ نہ رہا ہو اور اس قوم نے اس دوران خود بخود اخلاقی و علمی ترقی اور عروج کی منزلیں طے کر لیں ہوں۔
یا ان قوموں کو اوج کمال حاصل ہو گیا ہو، ہمیشہ سے آزاد قوموں کی اگر تاریخ دیکھیں تو تباہ و برباد کھنڈرات سے ان کی باقیات میں سے علم و ہنر کے شواہد تو ملتے ہیں مگر زمانہ ساز کسی ایجاد کا کوئی سراغ برآمد نہیں ہوتا، مگر اس کے برعکس ہر وہ قوم جسے کسی جابر آقا نے غلام بنانے کی کوشش کی ہو، کسی دوسری قوم نے تسلط قائم کر لیا ہو، حقوق غصب کر کے ملک و قوم کی شخصی و شعوری آزادی پر پہرے لگا دیے ہوں۔
انہی دبی ہوئی محکوم قوموں کو جب اپنی غلامی کا احساس ہوا یا دلایا گیا، تو پھر اس ذلت کے طوق سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہی قومیں اپنے آقا کے خلاف کھڑی ہو گئی، انہی قوموں نے آقا بدلنے کی بجائے نظام بدلنے کو ترجیح دی، پھر اس کے بعد کی آپ تاریخ پڑھ لیں، محکوموں نے جب بھی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی تو جلد یا بدیر کامیابی ان کا مقدر ٹھہری اور پھر انہی قوموں نے حقیقی آزادی کی قدر کرتے ہوئے علم و ہنر کے میدان میں وہ جھنڈے گاڑے ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کی ترقی اور کمال کا مقابلہ کرنا ناممکن ہو گیا۔
تاریخ ہمیشہ اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔ کسی بھی سماج میں انسانی مساوات اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہمیشہ سے زیرِک راہبر اور مدبر قائد کی کمی رہی ہے، ہجوم کو ایک قوم بنانے میں ہمیشہ سے کسی ایسے شخص کی ضرورت رہی ہے جو انقلاب کی دہلیز پر کھڑی قوم کے لئے مسیحا بن کر سامنے آئے، وہ ان کے دکھ درد کی دوا کرتے ہوئے اس لمحہ خاص کا ادراک کر لینے کے بعد، اس بغاوت کو ایک زمانہ ساز انقلاب کی شکل دے دیتا ہے، وہ اس انقلاب کے ذریعے ترقی و خوشحال اور پر امن ریاست کی بنیاد رکھتا ہے، جس سے سماج درست اور تعمیری سمت میں چل پڑتا ہے۔
اگر آج کے یا ماضی کے پاکستانی سماج کو دیکھا جائے تو ہم تلاش بسیار کے باوجود بھی زوال سے نکال کر ترقی یافتہ سماج بنانے کے لیے کوئی تہذیبی ورثہ، کسی انقلابی تحریک کا تسلسل یا ایسی اقدار تلاش کرنے میں نا کام رہتے ہیں، جو ذاتی فوائد یا انتقامی کاروائیوں سے بالا تر ہو کر قوم کی، علمی و فکری عروج کا فارمولا طے کرتے ہوئے انہیں معاشی فکروں سے آزاد کرا کر، خود داری، خود مختاری، سماجی و شخصی ترقی، علمی اور ماحول دوست ایجادات کی منہج پر ایستادہ رکھے۔
پھر ہماری یہ بھی بد قسمتی رہی ہے کہ جب بھی قوم رینگتے رینگتے کسی زمانہ ساز انقلاب کی دہلیز پر آ کھڑی ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ کسی ایسے موقع پرست اور چرب زبان کے ہاتھوں استعمال ہو جاتی ہے جو کسی جامع اور مستند منصوبے کے بغیر ایسا ویژن سے عاری منظر کھینچنے کی کوشش کرتا ہے، جس میں کسی بھی قسم کا عملی لائحہ عمل طے کرنا نا ممکن ہوتا ہے۔ تسلسل سے المیہ چلا آ رہا ہے کہ ہجوم کی مہار ہمیشہ اس کے ہاتھوں میں رہی ہے جو نہ تو ان کے اندر سے ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی پہلی ترجیح عوام یا عوامی مسائل ہوتے ہیں۔
آپ کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔