Teen Sawal (2)
تین سوال(2)
بادشاہ نے مڑ کر دیکھا، تو جنگل کی جانب سے ایک باریش شخص بھاگتا ہوا آرہا تھا، اس آدمی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے پیٹ کو کس کر پکڑا ہوا تھا، جہاں سے خون فوارے کی مانند پھوٹ کر بہہ رہا تھا، جب وہ ان کے نزدیک پہنچا تو زمین پر گرا اور گر کر بے ہوش ہو گیا۔ باریش شخص ساکت تھا، مگر تکلیف کے باعث دھیمے لہجے میں اس کراہنے کی آواز بدستور آرہی تھی۔
بادشاہ اور فقیر دونوں نے مل کر اس زخمی کا لباس اتارا تو دیکھا، اس کے پیٹ پر کافی بڑا اور گہرا زخم تھا، بادشاہ سے جس قدر ممکن ہو سکتا تھا۔ اس کے زخم کو صاف کیا، اپنے رومال اور فقیر کی چادر کے ساتھ اس کے زخم پر پھاہا رکھنے کے کوشش کی تاکہ خون کا اخراج رک جائے، مگر زخم کافی گہرا ہونے کے باعث خون نہ رک سکا، بادشاہ بار بار زخم کو صاف کرتا اور گرم خون سے لتھڑے رومال کو دھو کر پھر سے زخم پر باندھ دیتا۔
کافی مرتبہ یہی عمل دہرانے کے بعد جب خون بہنا بند ہو گیا تو زخمی نے آنکھیں کھولتے ہوئے نحیف آواز میں پینے کے لیے پانی مانگا، بادشاہ دوڑ کر گیا اور تازہ پانی لاکر زخمی کو پلایا۔ اس دوران سورج مکمل ڈوب چکا تھا اور موسم میں قدرے خنکی در آئی تھی، چنانچہ بادشاہ نے فقیر کی مدد سے زخمی شخص کو اٹھا کر جھونپڑی کے اندر بستر پر لٹا دیا، بستر پر لیٹتے ہی زخمی نے اپنی آنکھیں موندلی اور خاموشی سے سو گیا۔
بادشاہ جو دن بھر کے سفر اور زمین پر کیاریاں بناتے ہوئے، تھکن سے اتنا چور تھا کہ جھونپڑی کی دہلیز سے ہی ٹیک لگا کر سستانے لگا اور وہیں ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ موسم گرما کی مختصر سی رات میں بادشاہ نے پرسکون نیند کے خوب مزے لیے۔ اور صبح جب بادشاہ نیند سے بیدار ہوا تو اسے یہ سب یاد کرنے میں بڑا وقت لگا کہ وہ کہاں ہے یا وہ داڑھی والا عجیب سا شخص کون ہے۔
جو بستر پر لیٹے ہوئے اپنی چمکدار آنکھوں سے اسے مسلسل گھور رہا ہے۔ باریش شخص نے جب دیکھا کہ بادشاہ جاگ گیا ہے اور اب اس کی توجہ میری طرف ہے، تو اس نے کمزور سی آواز میں کہا، جناب مجھے معاف کر دیں" بادشاہ نے کہا کہ میں تو تمھیں جانتا ہی نہیں تو پھر معافی طلب کرنے اور معاف کرنے کا سوال کیسا۔ داڑھی والے شخص نے کہا، درست کہا، آپ کے لیے میں ضرور اجنبی ہوں۔
مگر آپ میرے لیے اجنبی نہیں، میں آپ کو جانتا ہوں اور میں آپ کا وہ دشمن تھا۔ جس نے آپ سے بدلہ لینے کی قسم اٹھائی تھی، کیونکہ آپ نے میرے بھائی کو سزائے موت کا حکم دے کر اس کی ساری جائیداد پر قبضہ کرلیا تھا۔ مجھے پکی خبر ملی تھی کہ بادشاہ فقیر سے ملنے اکیلے ہی جنگل کی جانب گیا ہے، سو میں تمھیں قتل کرنے کے ارادے سے تمھاری واپسی کے رستے پر گھات لگا کر بیٹھ گیا۔
مگر جیسے ہی دن ڈھلنے لگا اور تم واپس نہ آئے تو میں مایوس ہوکر تمھیں ڈھونڈنے کی خاطر اپنی کمین گاہ سے باہر نکل کر تمھیں ڈھونڈنے لگ گیا، اسی دوران میری مڈبھیڑ تمھاری حفاظتی سپاہ والے دستے سے ہوگئی، انہوں نے پہچان کر مجھ پر حملہ کر دیا، جس سے مجھے پیٹ پر مہلک زخم لگا، لیکن میں کسی طرح ان کے نرغے سے جان بچا کر بھاگ نکلا، اگر آپ میرے زخم پر پھاہا نہ رکھتے۔
مجھے بروقت تمھاری مدد نہ ملتی تو خون بہہ جانے کے باعث میرا مرنا یقینی تھا، میں آپ کو مارنا چاہتا تھا اور آپ میری جان بچانے کی تگ دو میں مصروف تھے۔ میں نے خود سے عہد کیا ہے کہ اب میری جتنی بھی مزید زندگی باقی ہے۔ اس دوران اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا سب سے زیادہ وفادار غلام بن کر رہوں گا، اور اپنی اولاد کو بھی ایسا ہی کرنے کی تلقین کروں گا، براہ مہربانی مجھے معاف کر دیں۔
بادشاہ کو یہ سب جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس کی اپنے جانی دشمن کے ساتھ انتہائی آسانی سے صلح ہو رہی تھی۔ بادشاہ نے نہ صرف اسے معاف کیا بلکہ اسے اپنا دوست بنا لیا اور کہا کہ واپس جاکر وہ اپنے شاہی نوکروں اور شاہی طبیب کو اس کی تیمارداری اور علاج کے لیے بھیجے گا اور ساتھ ہی وعدہ کیا کہ اس کی ضبط کی ہوئی تمام جائیداد بھی اسے لوٹا دے گا۔
اس کے بعد بادشاہ نے اس زخمی شخص سے اجازت چاہی اور جھونپڑی سے باہر نکل کر فقیر کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ بادشاہ نے سوچا کہ واپس جانے سے پہلے ایک آخری بار اپنے سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش ہوں، بادشاہ نے دیکھا کہ فقیر اپنی کٹیا سے باہر زمین پر گھٹنوں کے بل جھک کر اسی جگہ بیج بو رہا تھا، جہاں گزشتہ روز بادشاہ نے فقیر کے لیے کیاریوں کو ہموار اور مٹی کو نرم کیا تھا۔
بادشاہ فقیر کے پاس گیا اور استدعا کرتے ہوئے کہنے لگا، اے دانا شخص میں آخری بار کہنے آیا ہوں کہ اگر ہوسکے تو میرے سوالات کے متعلق اپنے جوابات عنایت کیجیے۔ فقیر نے ویسے ہی اکڑوں بیٹھے بیٹھے بادشاہ کی جانب دیکھا اور کہا، آپ کو تو تمام جوابات پہلے سے ہی دیے جاچکے ہیں، اب کیا باقی ہے؟ کیسے جواب؟ آپ کیا مطلب ہے؟ بادشاہ نے استفسار کیا۔
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ؟ فقیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، اگر گزشتہ کل تم نے میری کمزوری پر ترس کھاکر میری مدد نہ کی ہوتی، میرے ساتھ کیاریاں بنانے میں مدد نہ کرتے اور اسی وقت واپس لوٹ جاتے تو کیا ہوتا؟ گھات میں بیٹھا ہوا شخص تم پر حملہ کر دیتا، تو تم اس وقت اس بات پر پچھتاتے کہ کاش میں یہ وقت فقیر کے پاس ہی رہتا تو بہتر تھا۔
تو تمھارے لیے سب سے زیادہ ضروری اور اہم وہ وقت تھا، جب تم زمین کو کھود کر ہموار کررہے تھے، اور اس وقت میری صحبت تمھارے لیے ہر چیز سے بڑھ کر تھی، اور میرے ساتھ نیکی کرنا تمام کاموں سے بڑھ کر بہتر تھا۔ اس کے بعد جب وہ زخمی شخص دوڑتا ہوا ہمارے پاس آیا تو سب سے اہم اور ضروری وقت وہ تھا، جب تم اس کی تیمارداری کررہے تھے۔
کیونکہ اگر اسکی مرہم پٹی نہ کرتے تو وہ صلح کیے بغیر ہی مرجاتا، تو اس وقت وہ سب سے اہم شخص تھا، اور تم نے اس کے لیے جو کچھ کیا وہ تمھارا سب سے اہم اور ضروری کام تھا۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ سب سے موزوں اور اہم وقت صرف لمحہء موجود ہوتا ہے۔ اور ٹھیک یہ وہی وقت ہوتا ہے، جب ہم کچھ کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور کچھ کرگزرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
اور سب سے زیادہ ضروری وہ شخص ہے، جس کے ساتھ آپ موجود ہوں، کیوں کہ انسان کے فہم و ادراک سے یہ بالا ہے کہ اس کے بعد وہ کسی سے ملے گا بھی یا نہیں، اور سب سے اہم کام ہر حال میں نیکی کرنا ہے، کیونکہ صرف اسی ایک مقصد کے لیے انسان کو زندگی عطا کرکے یہاں بھیجا گیا ہے۔