Tabahi
تباہی
پرہجوم ہال کے عين وسط میں قد آدم کے برابر کی سیاہ رنگت والی کوئی گول مٹول سی چیز پڑی ہوئی تھی۔ دور سے یوں دکھائی دیتا تھا، جیسے ہال کے بیچوں بیچ کوئی شخص سیاہ رنگ کی دیگ رکھ کر بھول گیا ہو۔ اس عجیب و غریب شے کا اوپری حصہ چمکدار سرخ رنگ کا تھا، جس پر ایک بڑا سا گول بٹن بھی بنا ہوا تھا، اور درمیان میں ایک چوکور سا سفید خانہ بنا ہوا تھا۔
لوگ جیسے ہی اس فولادی گیند کے نزدیک پہنچتے تو واضح ہوتا کہ چوکور سفید خانے کے اندر ایک عبارت بھی لکھی ہوئی ہے، جو کچھ یوں تھی" خبردار یہ ایک خطرناک بم ہے، اس کے اوپر لگے سرخ رنگ کے بٹن کو دبانے سے یہ پھٹ کر تباہی پھیلا سکتا ہے" لوگ ہال کے اندر سجی تقریب میں آتے رہے اور اس جناتی قامت کے گولے کے اردگرد گھوم پھر کر اسے دیکھتے رہے۔
جیسے ہی تقریب اختتام کے قریب پہنچی تو ہال کے اندر اعلان ہونے لگا " خواتین و حضرات اس تقریب کے اندر ایک تجربہ کیا گیا تھا، جس کے لیے ہم نے اس ہال کے وسط میں ایک نقلی بم رکھا تھا، جس پر تحریر تھی کہ " خبردار بٹن مت دبائیں یہ بم اصلی ہے اور پھٹ سکتا ہے " اس کے لیے ہم نے ہال میں داخل ہونے والے پہلے شخص سے لیکر آخری شخص تک کیمروں کی مدد سے جانچ کی کہ کتنے لوگ اس ان تباہی تحریر کو سنجیدہ لیتے ہیں۔
اور کتنے لوگ اسے نظر انداز کرکے بٹن دباتے ہیں۔ انتظامیہ کا فیصلہ تھا کہ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد جو لوگ اپنے کام سے کام رکھنے والے ہوں گے، ان میں سے قرعہ اندازی کے ذریعے تین خوش نصیبوں کو منتخب کرکے بیش قیمت انعامات سے نوازا جائے گا۔ یہ انعام دینے کا فیصلہ انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا تاکہ لوگوں کے حقیقی رجحان کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اس تقریب میں ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے 999 افراد نے اس بٹن کو خوب اچھی طرح دبا کر دیکھا ہے کہ آیا یہ پھٹتا بھی ہے یا نہیں اور حیرت کی انتہا ہے کہ صرف ایک شخص ایسا نکلا، جو اس کے نزدیک جاکر بھی اس سے نہ صرف لاتعلق رہا بلکہ وہ چند سیکنڈ سے زیادہ اس مصنوعی بم کے پاس رکا ہی نہیں یہ اعلان سنتے ہی ہال میں موجود تمام لوگ افسوس کرتے ہوئے آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ کاش۔
ہمیں انعام کا پہلے سے پتا ہوتا تو اس ٹھیکرے کو نظر انداز کر دیتے۔ اس کے ساتھ لوگوں میں بے انتہا بے چینی اور تجسّس بھی تھا کہ آخر یہ شخص ہے کون جو ہزاروں میں فقط ایک ہے اور منفرد ہے۔ اعلان کرنے والے نے اس خوش نصیب شخص کا نام پکارا تو سب لوگ گردنیں موڑ موڑ کر ادھر دیکھنے لگے، جہاں دبلا پتلا ایک شخص ہجوم کو چیرتا ہوا اسٹیج کی جانب بڑھ رہا تھا اور لوگ اسے رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔
اسے دیکھ کر لوگ سرگوشیوں میں کہنے لگے یہ تو شکل سے پروفیسر نظر آتا ہے، کچھ نے کہا، اس کی چوڑی پیشانی اس کے دانشور ہونے کی دلیل ہے۔ انعام پانے والا شخص جب اسٹیج پر پہنچا تو شرکاء تقریب تالیاں بجاتے ہوئے اصرار کرنے لگے کہ یہ شخص مائیک پر آکر اپنے بارے میں چند کلمات کہے تاکہ ہم بھی اس کے نادر خیالات سے استفادہ کر سکیں۔ اس شخص سے پوچھا گیا کہ ہم نے انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
اس پر تحریر کیا تھا تاکہ لوگ عادت سے مجبور ہوکر اسے دبا کر دیکھیں لیکن نو سو ننانوے افراد نے جب اسے چھوا اور بٹن دبا کر خوب تسلی کی تو آپ نے اپنے آپ کو باز رکھتے ہوئے خود پر قابو پانے کی صلاحیت کیسے حاصل کی؟ اس شخص نے کھنگار کر گلا صاف کیا اور کہنے لگا، مجھے تو ساری بات اس اعلان کے ذریعے پتا چلی ہے ورنہ میں تو اس بابت لاعلم تھا۔
دراصل میں ان پڑھ شخص ہوں اور تحریر سے نابلد رہتے ہوئے، مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ یہ کوئی بم شم ہے جس پر لگے بٹن کو دبانے سے یہ پھٹ سکتا ہے۔