Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Taaif Ka Din

Taaif Ka Din

طائف کا دن

دنیا کے چند وہ بڑے مقامات، جو اپنی تہذیب و تمدن اور تاریخ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ طائف شہر بھی ان میں سے ایک ہے۔ یہ شہر آج تک اپنی ہزاروں سالہ قدیم ثقافت و تہذیب کو سنبھالے ہوئے ہے۔ طائف چاروں طرف سے بلند و بالا سنگلاخ پہاڑیوں میں گھری ہوئی وادی ہے۔ جو سطح سمندر سے تقریبا 6 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے خوشگوار حد تک سرد اور سیاحتی مقام کا درجہ رکھتی ہے۔

وادی طائف کا پرانا نام وادی وج تھا۔ یہاں پر قبل از اسلام ثقیف قبیلہ کی حکومت تھی، عربوں کے مشہور دیوتاؤں میں سے "لات" نامی بت بھی یہیں نصب تھا۔ لات دراصل دیوی تھی اور اہل طائف کو بے حد عزیز بھی تھی۔ ابرہہ جب مکہ پر لشکر کشی کے ارادے سے طائف سے گزرا تو اہل طائف نے اپنی دیوی کو بچانے کے لیے کہ کہیں ابرہہ کا لشکر اسے بھی مسمار نہ کر دے۔

اپنے قبیلے کے بہترین جنگجوؤں کا دستہ ابرہہ کی فوج کے ساتھ شامل کر دیا، یوں اتحاد ہونے سے طائف والوں نے اپنے علاقے اور اپنی دیوی کو بچا لیا۔ طائف طوف ط و ف یا طواف سے نکلا ہے۔ جس کا معنی چکر کاٹنا یا دائروی پھیرے لگانا تھا۔ افریقہ کے کسی ملک سے یہودیوں کو بے دخل کیا گیا تو انہوں نے آکر وادی وج میں پناہ لی۔ وادی وج (طائف کا پرانا نام) والوں نے یہودیوں اور اپنے درمیان ایک دیوار تعمیر کر دی۔

جو پہاڑیوں کے اوپر دائروں کی صورت میں تھی۔ جس کو عبور کرنے کے لیے گول چکر کاٹ کر وادی میں داخل ہوا جاسکتا تھا۔ اسی نسبت سے وادی وج سے وادی طائف ہوگئی۔ یہ وادی خلیفہ سوئم و داماد رسول اللہ حضرت عثمانؓ کی جائے پیدائش بھی ہے اور چشمہ صافی سے سیراب ہونے والے عم زادہ رسول اللہ عبداللہ بن عباس کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔ عبداللہ بن عباس سے منسوب پرشکوہ عمارت والی مسجد بھی اسی وادی میں ہے۔

طائف کو حجاز کا باغ یا گلابوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ عقیدت مندوں کے نزدیک طائف شہر سعودی عرب میں تیسرا بڑا مقدس شہر مانا جاتا ہے۔ آقا سیدنا ﷺکا بچپن طائف کی وادی میں بیتا تھا۔ آقا کو طائف سے قلبی لگاؤ تھا۔ اسلام کی تبلیغ کے اولین دس سالوں میں جب اہل مکہ پر الہامی پیغام کا خاطر خواہ اثر نہ ہوا تو آپ نے اپنے رفیق دوست زید بن حارث کے ساتھ طائف کا سفر کیا۔

آپ ﷺ نے وہاں دس دن قیام کے دوران اسلام کی تبلیغ کی تو اہل طائف کا ردعمل اہل مکہ سے بھی بدترین تھا۔ طائف کے تین سردار جو بھائی بھی تھے۔ انہوں نے شریر بچوں کو رستے کے دونوں جانب کھڑا کرکے حکم دیا کہ رحمت العالمین کے پاؤں مبارک کو پتھروں سے نشانہ بنایا جائے۔ ظلم کی انتہا تھی۔ مبلغ الاعظم اور رحمت کے سرچشمہ کے پاؤں مبارک پر۔

جب دائیں جانب والے پتھر پھینکتے تو زید بن حارث دائیں طرف ہوکر پتھر اپنے جسم پر روکتے، اور جب بائیں طرف سے پتھر آتے تو وہ بائیں طرف ڈھال بن جاتے۔ نعلین مبارک مقدس خون سے تر بتر تھے۔ آپ ﷺ نے اسی حالت میں ایک جگہ پناہ لی، جو انسانی کہنی کے مشابہ تھی، جسے بعد میں مسجد الکوع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہاں بھی شرپسند پہنچ گئے تو وہاں سے نکل کر قریب ہی انگوروں کے ایک باغ میں پناہ لی۔

باغ کے مالک نے اپنے غلام کو انگوروں کا خوشہ دیکر بھیجا کہ جاؤ، اس مسافر کو پیش کرو، وہ غلام جب انگور لیکر آقا کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے انگور لیکر بسم اللہ کہا اور تناول فرمانے لگے تو وہ غلام حیرت سے کہنے لگا۔ واللہ یہ ایک عجیب کلام ہے۔ جو اس وطن میں اس سے پہلے نہیں سنا، آپ ﷺنے پوچھا تم کون ہو اور تمھارا وطن کون سا ہے تو غلام کہنے لگا " میرا نام عداس ہے، میں نصرانی ہوں اور نینوا کا رہنے والا ہوں۔

آقا نے تبسم فرمایا اور کہا کہ نینوا جو میرے بھائی یونس بن متی کا وطن ہے۔ تو عداس تعجب سے پوچھنے لگا آپ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں؟ آقا سیدنا محمد ﷺ نے فرمایا کہ وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ آپ ﷺ نے عداس کو اسلام کی دعوت دی، عداسؓ نے نبوت کے یہ آثار وصفات دیکھ کر آپ کے دستِ مبارک اور پیروں کا بوسہ لیا اور کہہ اُٹھے: أَشْهَدُ أَنَّكَ عَبْدَ اللهِ وَرَسُوْلُهُ۔

آج اس جگہ پر پتھر مارنے والوں کو کوئی نہیں جانتا، مگر وہاں عداسؓ کے نام سے آباد مسجد اس بات کی گواہ ہے کہ نغمہ توحید جہاں پر ایک دفعہ گونجتا ہے۔ وہاں سدا باغ و بہار ہی رہتی ہے۔ صحیحین میں ہے کہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓا نے سیدنا محمد ﷺ سے دریافت کیا " یا رسول اللہ کیا آپ کی حیات مبارکہ میں احد سے بھی بڑھ کر کوئی سخت ترین دن گزرا ہے"؟

آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں عائشہ، طائف کا دن بڑا سخت ترین دن تھا۔ جب میں نے اپنے آپ کو وہاں کے سرداروں کے سامنے پیش کیا تھا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار دو راتیں طائف میں گزاری ہیں۔ مکہ سے پچاس میل کی دوری پر دہشت ناک سیاہ سنگلاخ پہاڑیوں کے دشوار گزار رستوں پر اس جدید دور میں سفر کرنا انتہائی دشوار اور مہارت کا متقاضی ہے۔

تخیل کی اتنی طاقت پرواز نہیں کہ وہ اس زمانے میں جھانک سکے جب رحیم و کریم آقا نے ظلم کرنے والوں کی وادی میں ہیبت ناک پہاڑیوں کو پیدل عبور کیا ہوگا۔ اور توحید کا پیغام پہنچانے کے لیے سرداروں کے سامنے پیش ہوئے ہوں گے کہ سردار عام لوگوں سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھنے والے اور معاملہ فہم لوگ ہوتے ہیں۔ مگر افسوس سردار صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ نکلے۔

Check Also

Ghair Islami Mulk Ki Shehriat Ka Sharai Hukum

By Noor Hussain Afzal