Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Stockholm Syndrome

Stockholm Syndrome

سٹاک ہوم سنڈروم

تعلق اور لمس کی طلب خالصتاً انسان کا اپنا تخلیق کردہ جذبہ ہے۔ لاکھوں سال پہلے کا انسان بھی کسی کے لمس اور انسیت کے لیے اداس رہتا ہوگا، غاروں میں تنہا رہنے والوں نے تبھی تو دیوتاؤں کے خوبصورت بت تراشے تاکہ انہیں چھو سکیں، ان سے مخاطب ہوسکیں اور ان سے لپٹ کر اپنی خوف زدہ روح کا بوجھ بانٹ سکیں، ان کے قدموں میں سر رکھ کر وہ بپتا سنا سکیں جو کسی اور سے نہیں کہی جاسکتی تھی۔ یعنی محبت سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے جسے وابستگی اور سپردگی، قربت اور لمس کی حدت کہا جاسکتا ہے، جس کی طلب اور تلاش انسانی جبلت میں اس طرح رچ بس گئی کہ آج کے جدید انسان کے لیے بھی تنہائی سب سے بڑی اذیت ہونے کے باعث وہ وابستگی کی ضرورت کا قیدی ہے۔۔ اگر اسے مکمل طور پر الگ کر دیا جائے تو وہ یا تو پاگل ہوجاتا ہے یا رفتہ رفتہ اپنی انسانیت کھو دیتا ہے۔ یہی وہ داخلی ساخت ہے جس پر سٹاک ہوم سنڈروم کی بنیاد ٹکی ہے.

جب کوئی شخص طویل خوف یا جبر میں رہتا ہے تو بقا کے لیے ایک عجیب تدبیر اپناتا ہے، وہ اپنے قید کرنے والے سے مانوس ہو جاتا ہے۔ یہ محبت نہیں، مگر محبت جیسا احساس ہے۔ یہ عقل کی پیداوار نہیں، بلکہ دل کی اس چال کا نتیجہ ہے جو خود کو اذیت کے درمیان محفوظ محسوس کرنے لگتا ہے۔

1973 میں سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں ایک بینک ڈکیتی کے دوران یرغمال بنے افراد نے رہائی کے بعد ڈکیتوں کے لیے ہمدردی ظاہر کی اور اپنے اخراجات پر ان کے کیس لڑے۔ دنیا حیران رہ گئی کہ ظالم سے انسیت کیسے ممکن ہے۔ مگر انسانی ذہن کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ خوف کو برداشت نہیں کر سکتا۔ جب وہ آزادی سے محروم ہوتا ہے، تو اسی ہاتھ کو سہارا سمجھنے لگتا ہے جو اسے باندھتا ہے۔

یہ کیفیت صرف جرم یا قید تک محدود نہیں۔ روزمرہ زندگی میں بھی بہت سے لوگ ایسے رشتوں، نظاموں اور عقائد میں قید ہیں جہاں محبت اور جبر کے بیچ فرق مٹ چکا ہے۔ وہ عورت جو برسوں کی تذلیل کے باوجود شوہر کو چھوڑ نہیں پاتی، وہ بچہ جو اپنے جابر والد سے نفرت کرتے ہوئے بھی اس کی ستائش چاہتا ہے، وہ ملازم جو اپنے ظالم آقا کو محسن سمجھتا ہے، وہ قوم جو اپنے جابر رہنما سے نجات چاہتے ہوئے بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان رہتی ہے، سب اسی کیفیت کے عکس ہیں۔

سٹاک ہوم سنڈروم دراصل انسان کی بقا کی جبلت کا چہرہ ہے۔ جب باہر کی دنیا غیر یقینی ہو، تو قید بھی پناہ گاہ لگنے لگتی ہے۔ یہ مظہر بتاتا ہے کہ انسان ظالم سے نہیں، تنہا ہونے سے ڈرتا ہے۔ وہ کسی بھی رشتے، کسی بھی زخم، کسی بھی آواز کو اپنے وجود سے جوڑ لینا چاہتا ہے، تاکہ خود کو زندہ محسوس کر سکے۔

سماجی سطح پر یہ سنڈروم ہمارے اجتماعی رویے کی جھلک ہے۔ ہم وہ معاشرے ہیں جو غلامی کو اطاعت اور جبر کو وفاداری کا نام دیتے ہیں۔ ہم ان طاقتوں سے وابستگی رکھتے ہیں جو ہمیں مسلسل کمزور کرتی ہیں، کیونکہ ان کے بغیر ہم اپنی شناخت کھو دینے سے ڈرتے ہیں۔ آزادی سے زیادہ مشکل کام آزاد رہنا ہے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz