Soch Ki Taqat
سوچ کی طاقت
مجھے اگر سوچ کی طاقت نہ ودیعت کی جاتی اور میرے تخیل کو کائنات کی لامحدود وسعتوں تک رسائی حاصل نہ ہوتی تو تنہائی اور گھٹن زدہ بند کمروں کی وحشت میں شاید ایک دن بھی زندہ نہ رہ پاتا۔ آباد جہانِ تخیل میں منزل سے بھٹک کر بھی ہر راہ پر ہر سمت سے اس کا ملنا ایک بہت بڑی عیاشی اور نعمت عظیم ہے۔ میں جب چاہوں اور جسے چاہوں اسے سوچ کے سندیسے بھیجوں، اور من چاہے جواب پاؤں۔
سوچوں ہی سوچوں میں ملاقات طے ہو جائے، ملنے سے پہلے خیالوں کے تسمے باندھتے ہوئے میں اس کی کھڑکی میں گلاب کی پتیوں سے دستک دیتا ہوں اور وہ رات کی رانی کی مانند مہکتی ہوئی زلفوں کے ساۓ میں ان مرغزاروں اور چمنستانوں میں مجھے لے اڑتی ہے جہاں تاقیامت کسی کو آباد نہیں ہونا ہے۔ کبھی میرا وجود دالان میں رکھی اکلوتی کرسی پر پڑا اونگھتا رہتا ہے اور میرا تخیل سرکش برفانی تودے کی مانند رستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرتا ہوا اس جھیل کی آغوش میں جا پہنچتا ہے جسے ابھی تک چاند نے چھوا نہیں ہے۔
جس کا دریافت ہونا ابھی باقی ہے، بڑے مزے کی بات ہے کہ اس تخیلاتی دنیا میں عقیدے، ذات پات اور اسٹیٹس کا کوئی دخل نہیں کوئی وجود نہیں ہے، سوچوں پر پہرہ نہیں، کسی کے سوال کا کٹہرہ نہیں۔ کل شب جب شکن زدہ بستر پر میرا بدن بے خبر سو رہا تھا اس لمحے میرا تخیل نوخیز کلی کی مانند انگڑائی لیکر بیدار ہوا اور خواب کی صورت ڈھل کر مجھے ان جہانوں میں لے گیا جن کا عدم سے وجود میں آنا شاید ناممکن تھا۔
میرے ہاتھوں کی اوک میں وہ اپنا نصف چہرہ رکھے ہوئے تھی، ہم بادلوں کے جھولے پر سوار تھے اور ہمارے اردگرد دودھیا رنگت کے فلک بوس درخت تھے جن پر سرخ رنگت کے رس سے بھرے پھلوں کے گوشے لٹک رہے تھے، ان خوشوں پر بیٹھی شہد کی مکھیاں جب رس کشید کرتیں تو گلابی سیال کی ننھی منی بوندیں سرخ گوشوں کے دامن پر ابھرنے لگتیں۔
میں نے ہاتھ بڑھا کر ایک گوشہ توڑ کر چکھا تو اس کے اندر شراب طیور کا رس میرے لیے یوں اجنبی تھا، جیسے بچہ پیدائش کے بعد پہلی بار کسی رس سے آشنا ہو رہا ہو۔ وہ ذائقہ گر وجودی دنیا میں ہوتا تو خرد اور جنوں کی کشمکش مٹانے کے لیے بیکار تھا۔ ہمارے اردگرد ہر سو سکوں خیز سکوت تھا، میرے ہمدم کے ادھ سرخ چیری جیسے یاقوتی لبوں سے فقط بوسے جھڑتے تھے، کہیں تتلیوں کے رقص اور جگنوؤں کے گیت تھے، کہیں پر پھولوں کا خوشبوؤں سے لبریز مسحور کن تبسم۔
کہیں پر اجلے بے داغ چاند اور چاندنی کی آنکھ مچولی، کہیں نیلے پانیوں کی تہہ میں تیرتی شفاف سیپیوں کی کوکھ میں سیاہ موتی جگمگا رہے تھے اور وہاں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو ایک صدف کی ہوس میں سیپیوں کے بطن چیرتا دکھائی دیتا، اک تپتے صحرا میں ایک یخ بستہ پانیوں والی جھیل تھی جس کی سطح پر کسی دور دیس سے ہجرت کرکے آنے والی مرغابیوں کی چونچ میں زیتون کی سبز ڈالیاں تھیں اور کوئی بھی لقمہ تر کے لیے انہیں شکار نہیں کر رہا تھا۔
لوگ تھے مگر خودی میں مسرور، خواب و خیال کا عجب جہاں تھا، ہر شے میری دسترس میں تھی مگر میں اُس کے سوا ہر اک شے سے بے نیاز تھا، پتا نہیں نارسائی کا کون سا لمحہ تھا جب میرے من میں اس خیال نے نقب لگائی کہ کیا اس جہان تخیل میں بھی کوئی حقیقی خدا ہو گا یا نہیں؟ کیونکہ وہاں خدا تو نہیں تھا مگر پھر بھی دکھائی دیتا تھا۔ تو ٹھیک اسی لمحے سلوٹ زدہ بستر پر پڑا میرا وجود کسکمسایا خواب ٹوٹا اور مجھے اس جہان میں واپس لے آیا جہاں خدا ہے تو سہی مگر دکھائی نہیں دیتا۔