Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Shor Machati Dharkano Ka Qissa (1)

Shor Machati Dharkano Ka Qissa (1)

شور مچاتی دھڑکنوں کا قصہ (1)

یہ سچ ہے! میں بوکھلایا ہوا تھا بہت بہت خوفناک حد تک میں گھبرایا ہوا تھااور ابھی تک اسی کیفیت میں ہوں لیکن کیا آپ مجھے اس بات پر پاگل کہیں گے؟ کیوں؟ اس مرض نے میرے حواس کو تو نہ ہی تباہ کیا تھا اور نہ ہی میرا ذہن ماؤف ہوا تھا، بلکہ اس نے تو میری حسیات کو مزید بھڑکا دیا تھا سب سے بڑھ کر میری حسِ سماعت تو کیا غضب کی تیز ہوگئی تھی،میں نے آسمانوں اور زمین کی ساری باتیں سنی ہیں۔ میں نے جہنم کی بھی بہت ساری باتیں سنی ہیں۔ پھر، میں کیسے پاگل ہوں؟ سنو! اور مجھے بغور دیکھو کہ کتنا چاق و چوبند ہوکر میں پرسکون رہ کر تمھیں سارا قصہ سناتا ہوں ۔

یہ بتانا میرے لیے ناممکن ہے کہ یہ خیال پہلے پہل میرے ذہن میں آیا کیسےلیکن ایک بار اس خیال نے میرے اندر جڑ پکڑ لی تو پھر، اس نے دن رات مجھے گرفت میں جکڑے رکھا تھا نہ ہی تو مجھے کوئی اعتراض تھا اور نہ ہی کوئی ایسا ویسا جذبہ تھا بلکہ مجھے تو بوڑھے شخص سے پیار تھا، اس نے مجھے کبھی میری کسی بات پر نہ ہی ٹوکا تھا، اور نہ کبھی میری توہین کی تھی۔ اس کے پاس جو مال و دولت تھا اس میں تو مجھے ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ شاید اس کی آنکھ تھی! ہاں، یہی وجہ تھی! اس کی ایک آنکھ بوڑھے گدھ کی آنکھ جیسی تھی، ہلکے نیلے رنگ کی جس پر ایک جھلی بھی تھی، جب وہ اس آنکھ سے مجھے دیکھتا تھا، تو جیسے خون میری رگوں میں بتدریج منجمند ہونا شروع ہو جاتا تھا۔

میں نے اپنے ذہن میں اس بوڑھے شخص کی جان لینے کا فیصلہ کرلیا تھا، اور یوں ایک دن میں نے اس آنکھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرلیا۔اب یہی ایک نکتہ ہے، کہ تم مجھے بس پاگل تصور کیے بیٹھے ہو، حالانکہ فاتر العقل تو کچھ بھی نہیں جانتے۔ تمھیں وہ سب دیکھنا چاہیے تھا، کاش تم دیکھتے کہ میں نے کتنی زبردست حکمت عملی کے ساتھ سارا معاملہ نمٹایا تھا - کتنی احتیاط کے ساتھ ہر چیز کی پیشگی منصوبہ بندی کے ساتھ کتنی رازداری کے ساتھ میں اپنے ارادوں کو چھپائے ہوا کام پر جاتا تھا! اسے قتل کرنے سے ایک ہفتہ پہلے ہی میں نے اس کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چھوڑ دیا تھا۔

اور پھر ہر رات، تقریباً جب نصف شب بیت جاتی تھی تو میں دبے پاؤں چلتا اور بڑی ہی آہستگی سے اس کے کمرے کے دروازے پر لگی بڑی سی چٹخنی گھماتا، اتنا دروازہ کھولتا جس سے کم از کم میرا سر اندر داخل ہوسکے، پھر میں تمام روشنیاں گل کردیتا، حتیٰ کہ روشنی کی ایک رمق بھی باقی نہ رہتی، اور پھر میں اپنا سر اس ذرا سے کھلے دروازے سے اندر گھسیڑنا شروع کرتا، تم اگر دیکھتے کہ کتنی چالاکی سے میں یہ سب کر رہا تھا، تو تم ہنسے بغیر نہ رہتے، پھر دھیرے دھیرے، خاموشی سے، اپنا سر اور چہرہ اگے بڑھاتا رہتا تاکہ کسی قسم کی آواز سے بوڑھے شخص کی نیند میں خلل پیدا نہ ہو اس تھوڑے سے خلا میں سے جب میرا پورا سر اچھی طرح اندر داخل ہوجاتا تھا، تو میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ اپنے بستر پر لیٹا سو رہا ہوتا تھا۔

اس مشق میں مجھے تقریباً ایک گھنٹہ لگتا تھا، آہا! کوئی پاگل شخص اتنی دانشمندی دکھا سکتا ہے کیا؟ اور جب میری گردن اس مختصر سے خلا میں گھومنے کے قابل ہوجاتی، تو میں لالٹین کو محتاط ہوکر، بڑی احتیاط کے ساتھ، نہایت ہی احتیاط کے ساتھ بس اتنا ہی جلاتا، جس سے، دروازے میں بنی ایک ننھی سی درز سے روشنی کی ایک باریک سی کرن چھن کر اس گدھ کی آنکھ پر پڑتی تھی، اور یہ سب میں سات طویل راتوں تک کرتا رہا، ہر شب صرف نصف شب کے وقت اور ہر بار وہ آنکھ مجھے بند ہی دکھائی دیتی، جس سے میرے لیے اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانا ناممکن تھا، میرے لیا مسئلہ وہ بوڑھا شخص نہیں۔

بلکہ اس کی شیطانی آنکھ بنی ہوئی تھی، اور پھر ہر صبح جیسے ہی سورج طلوع ہوتا میں بڑی بہادری کے ساتھ اس کی خوابگاہ میں جاتا، اور دلیری سے بات کرتا، بلکہ خوشدلی کے ساتھ اس کا نام لے کر اسے پکارتا، اور پوچھتا، کہ اس کی رات کیسے گزری ہے؟ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اندر سے ایک نہایت ہی گہرا بوڑھا شخص تھا، حقیقتاً، اس کو شک تھا کہ ہر رات، صرف بارہ بجے، میں اسے دیکھنے آتا تھا جب وہ سورہا ہوتا تھا۔آٹھویں رات کو میں نے پہلے سے بڑھ کر حد درجہ احتیاط اور آہستگی سے دروازہ کھولا حتیٰ کہ گھڑی کی منٹ والی سوئی میرے ہاتھ سے تیز چل رہی تھی۔ اس رات سے پہلے میں نے اپنی فہم و فراست کی بے پناہ طاقت کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا۔

جب میں سوچتا ہوں کہ اس وقت وہاں میں ہی تھا، تو اپنی فتح کا احساس چھپانا میرے لیےمشکل ہوجاتا ہے، تھوڑا تھوڑا کرکے میں دروازہ کھول رہا تھا، اور ایک وہ تھا جسے میرے خفیہ منصوبوں اور ارادوں کی بھنک شاید خواب میں بھی نہیں پڑی تھی مجھے اپنے منصوبے پر ہنسی بھی آئی، اور شاید اس نے میری آواز سن لی تھی، جیسے کوئی چونک جاتا ہے، ایسے اس نے اچانک تیزی کے ساتھ بستر پر کروٹ بدلی، اب تم شاید سوچ رہے ہو کہ میں فوراً پیچھے ہٹ گیا تھا، لیکن نہیں ایسا نہیں ہوا اس کا کمرہ اتنا تاریک تھا جیسے گہرے اندھیرے کی لپیٹ میں ہو (چونکہ ڈاکوؤں کے خوف سے سارے دروازے مضبوطی سے بند تھے) اور میں جانتا تھا کہ وہ دروازہ کھلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا، اسی لیے میں آہستہ آہستہ دروازے پر دباؤ بڑھاتا رہا اب میرا سر پوری طرح دروازے کے اندر تھا، اور میں جیسے ہی لالٹین جلانے لگا،

میرے ہاتھ کا انگوٹھا پھسلااور لالٹین کے ڈھکن کے ساتھ جا ٹکرایا، بوڑھا شخص فوراً اپنے بستر سے اچھلا، چلاتے ہوئے کہنے لگا، "وہاں کون ہے " میں ساکت دبکا پڑا رہا اور کچھ نہ بولا، پورا ایک طویل گھنٹہ یوں بے حس و حرکت رہا کہ جسم کے عضلات تک کو جنبش نہ دی، اس دوران مجھے بھی اس کے بستر پر دوبارہ لیٹنے کی آواز نہیں آئی تھی، میری طرح وہ بھی بستر پر چپ چاپ دبک کر بیٹھا کوئی آہٹ سننے کا منتظر تھا۔رات سیاہ اور گہری سیاہ ہوتی گئی، دیوار پر ٹنگی گھڑی کی ٹک ٹک میں موت کے بڑھتے قدموں کی چاپ بڑھتی جارہی تھی۔

اسی وقت مجھے معمولی سی کراہنے کی آواز آئی، میں جان گیا تھا کہ یہ موت کے خوف کی آہ ہے کیونکہ یہ آہ نہ تو درد کی تھی اور نہ ہی دکھ کی ایسا بالکل بھی نہیں تھا.۔یہ ایک ایسی دبی اور گھٹی گھٹی سی آواز تھی جو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب روح پر پڑے بوجھ ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں، میں تو یہ آواز بڑی اچھی طرح پہچانتا تھا۔ کئی راتوں میں جب رات نصف گزر جاتی تھی اور پوری دنیا بے خبر سورہی ہوتی تھی، تو ایسی آواز میرے سینے سے کئی بار طلوع ہوئی تھی، گہری انتہائی گہری جو موت کی بازگشت لیے ہوتی تھی، اور ایک جان لیوا خوف مجھے جکڑ لیتا تھا۔میں اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ میں اسے بڑے اچھے طریقے سے جانتا ہوں ۔

مجھے اس بوڑھے شخص کے احساسات کا بخوبی اندازہ تھا، اور مجھے اس پر اس لمحے ترس بھی آیا، اگرچہ دل میں ایک قہقہہ بھی پھوٹا تھا۔میں جانتا تھا کہ جب اس نے پہلی بار وہ ہلکی سی آواز سنی تھی، اسی لمحے سے وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔اور جب سے وہ بستر پر دوبارہ گیا تھا تب سے لیکر اب تک اس کا خوف لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جارہا تھاوہ خود کو تسلی دیتا رہا کہ اسے خوامخواہ کا خوف لاحق ہوگیا ہےلیکن یہ بے سود تھاوہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا "یہ چمنی سے گزرنے والی ہوا کے سوا کچھ نہیں ہے ہوسکتا ہے ایک چوہا ہو جو فرش کو عبور کررہا ہے" یا یہ محض ایک جھینگر ہے جس نے ایک بار ہی وہ آواز پیدا کی ہے۔ ہاںوہ ان قیاس آرائیوں سے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھالیکن یہ سب اس کے لیے بیکار تھابالکل ہی بیکار کیونکہ تاریک موت کے گہرے بڑھتے ہوئے سائے اس کے سر پر آن پہنچے تھےجو اسے کسی بھی لمحے دبوچنے والے تھے۔

وہ اپنے تخیل میں کسی غیر مرئی خوفناک سایے سے خوفزدہ تھا، اگرچہ کہ وہ نہ تو دیکھ سکا تھا اور نہ ہی سن سکتا تھا کہ اس کے کمرے کے دروازے میں سے کسی کا سر کب سے جھانک رہا ہے۔صبر آزما طویل انتظار کے بعد بھی جب میں اس کی بستر پر لیٹنے کی آہٹ نہ سن سکاتو میں نے یہ حل نکالا کہ لالٹین کے اوپر سے تھوڑا سا انتہائی تھوڑا سا ڈھکن اٹھاؤں اور ایک باریک مدھم سی کرن نکالوں ،پس میں نے وہ ڈھکن اٹھایا، تم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ کتنی رازداری اور احتیاط سے میں یہ کرتا ریا حتیٰ کہ ایک بمشکل روشن کرن نمودار ہوئی جو بالکل مکڑی کے جالے بننے والی تار کے مشابہ تھی۔ وہ اس درز سے ہولے ہولے ہوتی ہوئی بالآخر اس گدھ جیسی آنکھ تک جا پہنچی، او! وہ کھلی ہوئی تھی، حد درجہ تک کھلی ہوئی آنکھ وہ ایک جھلک مجھے خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھی۔

میں بلا امتیاز اسے پہچان سکتا تھا، ایک پھیکا پڑتا ہوا نیلا رنگ جس کو ایک کریہہ جھلی ڈھانپے ہوئے تھی، اور یہ سب میری ہڈیوں کا گودا منجمند کرنے کے لیے کافی تھا اس آنکھ کے پیچھے بوڑھے شخص کا چہرہ یا وجود دیکھنے سے میں بالکل قاصر تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے روشنی کی وہ مدہم کرن میری جبلت کی مطیع ہوکر بس آنکھ کے ہدف کو ہی نشانہ بناتی تھی میں تو تمھیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ مجھے پاگل قرار دینا تمھاری غلطی تم نے دیکھا نہیں میں نے اپنی تمام حسیات کو کیسے عمدگی سے استعمال کیا۔اب میں تمھیں بتاتا ہوں کہ میرے کانوں میں اچانک ایک مدھم، نامانوس مگر تیز آواز سنائی دینے لگی تھی، بالکل ایسی جیسے کوئی گھڑی کو روئی میں لپیٹ دے اور وہاں سے عجیب سی ٹک ٹک ابھر رہی ہو، مجھے ادراک ہوگیا تھا کہ یہ اس بوڑھے شخص کے دل کی دھڑکن تھی اس آواز نے میری وحشت اور غضبناکی کو بڑھا دیا یوں جیسے بجتا ہوا طبل فوجیوں کا جنگی جنون بڑھاتا ہے۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz