Shahid Anjum Ke Sath
شاہد انجم کے ساتھ
ﻓﺮﯾﺐِ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻮ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﻧﮧ ﺧﻮﺵ ﺍﺗﻨﺎ ﻟﺒﻮﮞ ﮐﯽﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺳﮯ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺣﺎﺩﺛﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ
گزشتہ شب میں اپنے برادر شاہد انجم کے ساتھ محو سفر تھا، تند و تیز ہواؤں کے بعد چھینٹم چھینٹ بارش برسی تو موسم کی رومینٹک ادا دیکھ کر من میں چائے پینے کا خیال انگڑائیاں لینے لگا۔
گاڑی جرنیلی سڑک کے کنارے بنے ہوٹل پر روکی اور جیسے ہی ہم ہوٹل کے سامنے کھلے آسمان تلے بچھی چارپائیوں پر بیٹھے، ایک چھوٹا سا لڑکا آن وارد ہوا، "بابو جی جوتے پالش کروا لو" یہی کوئی شب گیارہ بجے کے بعد کا وقت ہوگا۔
ایک دفعہ سوچا یار ابھی گھر جارہا ہوں پالش کروا کر کیا کروں گا، پھر سوچا یار رات کے اس پہر کوئی رزق روزی کی تلاش میں ہے تو اس کا وسیلہ ہم مسافر نہیں بنیں گے تو پھر کون بنے گا؟
پوچھا پالش کے کتنے پیسے ہیں؟ کہنے لگا بابو جی تیس روپے، میں نے کہا اچھا چھوٹو یہ لو جوتے اور پالش کردو اور اپنے پاس سے کوئی چپل دے دو اتنی دیر پہن لیتا ہوں، کہنے لگا بابو جی اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے کہ گاہکوں کے لیے کوئی چپل رکھ سکوں۔
اتنی دیر میں ہوٹل کا بیرا آگیا، اور چھوٹو جوتے لیکر مسافروں وغیرہ سے دور ہٹ کر جوتے چمکانے لگا، بیرے کو چائے کا آرڈر دیا تو ساتھ دل کیا کچھ کھا لوں، میں نے کھانے کا آرڈر بھی کردیا، بڑی سی رقابی میں کھانا آیا تو برادر شاہد انجم نے کہا میں تو صرف چائے پیوں گا۔
کھانا تم نے اکیلے ہی کھانا ہے، میں نے سوچا یار میں نے تو آج تک اکیلے کھانا نہیں کھایا، اکثر تنہا سفر کے دوران غیر ملکی ایرپورٹ ویٹنگ ایریاز میں بھی کسی نہ کسی کے ساتھ شئر کر لیتا ہوں، اب یہاں کون ہوگا میرے نصیب کا رزق جس کے حصے میں ہوگا۔
اتنے میں چھوٹو جوتے چمکا کر لے آیا، میں نے اسے کہا جا بھائی ہاتھ دھو کر آ، اور کرسی لیکر میرے پاس بیٹھ جا، جب وہ آیا تو میں نے کہا چل بسم اللہ کر، اور کھانا شروع کر، تو وہ تھوڑا سا گھبرا گیا کہ کہیں کھانا کھلا کر پیسے دینے کی بجائے ایسے ہی ٹرخا ہی نہ دوں۔
کہنے لگا نہیں بابو جی کھانا نہیں کھانا، مجھے پیسے چاہیے، میں نے کہا اللہ کے ولی تو بے فکر ہوکر کھا یہ تیرا نصیب ہے، میری بات سن کر، وہ اچانک جیسے مطمئن سا ہوگیا، اور کھانا کھانے لگا، میں نے غیر محسوس طریقے سے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور اسے جی بھر کر کھانے دیا۔
اس نے خوب شکم سیر ہوکر کھانا تناول کیا، میں نے بیرے سے چائے لانے کا کہا، تو چھوٹو کہنے لگا، بابو جی میں چائے نہیں پیتا، میں نے پوچھا کیوں بھئی، چائے کیوں نہیں پیتے؟
وہ تھوڑے توقف کے بعد بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا، بابو جی، میرا باپ ایکسیڈنٹ میں فوت ہوگیا تھا، میری ماں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے چند پیسے کما لیتی ہے، گھر میں چھوٹی بہنوں کے لیے دودھ بمشکل خریدتے ہیں۔
ایسے میں ہم گھر میں دو وقت فقط سالن روٹی ہی کھاتے ہیں، چائے کبھی بھی نہیں پیتے، اسی وجہ سے میں اسکول بھی نہیں جاتا، وطن کے لاکھوں کروڑوں سفید پوش گھرانوں کی شاید یہی حالت ہو، مگر اس لمحے چھوٹو کی بات نے دکھی کردیا۔
دل میں کہا، بچے تو اور تیرا کنبہ ریاست کی ذمہ داری تھی، اور ریاست بھی وہ جو خود کو مسلمان ریاست کہتی ہے، مگر ریاست ہی غیر ذمہ دار ہو تو کیا کرسکتے ہیں۔ کہنے لگا، اچھا چائے رہنے دیں، سنا ہے اس ہوٹل کی کھیر بڑی مزیدار ہوتی ہے۔
میرا بڑا دل کرتا ہے یہاں کی کھیر کھانے کا، آپ مجھے کھیر کھلادیں، صاحبو وہ چھوٹو جو گھر کا بڑا تھا، اُس لمحے اس کے لہجے میں گُھلی حسرت نے کلیجہ چھلنی کردیا۔ بیرے کو بلا کر کھیر کا کہا مگر وائے قسمت، کہنے لگا کھیر تو سر شام ختم ہوجاتی ہے۔
اب تو رات کے بارہ بجنے والے ہیں۔ میں نے کہا چل کچھ اور کھا لے تو چھوٹو کہنے لگا، "رہنے دیں صاحب، ہم غریبوں کی تو قسمت ہی ایسی ہے، جس شے پر دل آجائے، وہ کبھی بھی نہیں ملتی"
نوٹ: صاحبو اگر آپ اس تحریر سے میری ذاتی تشہیر یا نمود نمائش کا کوئی پہلو نہ نکالیں تو پھر اسے بے شک پڑھ لیں۔