Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Toqeer Bhumla/
  4. Self Control

Self Control

سیلف کنٹرول

چینی فلاسفر کنفیوشس کی ایک کہانی جس میں خود پر قابو پانے (سیلف کنٹرول) کا ایک بہترین سبق موجود ہے۔ (1908) میں اس کہانی کو چینی افسانوں اور لوک کہانیوں کے مجموعے میں شائع کیا گیا تھا، جس کا انگریزی ترجمہ میری ہیس ڈیوس اور چاؤ لیونگ نے کیا ہے۔

ایک بار ایسا ہوا کہ کنفیوشس کی اکیڈمی میں اس کے دو شاگردوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا ہو گیا۔ لڑائی جھگڑا کرنے والا ایک شاگرد شریف النفس تھا، وہ شاذ و نادر ہی کسی بات پر غصہ کرتا تھا، تمام طلبہ اسے پرامن اور صلح جو آدمی کہتے تھے۔ دوسرا تھا تو ذہین اور نیک دل، لیکن وہ غصے کا بے حد تیز تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ جس کام کے متعلق وہ ایک بار ٹھان لیتا تھا تو پھر اسے پورا کرنے تک چین سے نہیں بیٹھتا تھا۔

اگر کوئی اس کی راہ میں رکاوٹ بننے یا اسے کسی کام سے باز رکھنے کی کوشش کرتا تو وہ اچانک بھڑک اٹھتا تھا اور غضبناک ہو کر اس شخص کے ساتھ بری طرح پیش آتا تھا۔ دوستوں نے بیچ بچاؤ کر کے دونوں کے درمیان صلح کروا دی اور یوں معاملہ نمٹ گیا۔ چند دن بعد پھر ایک ساتھی طالب علم نے اس غصیلی طبعیت والے طالب علم کو کسی بات پر طعنہ دیا اور وہ فوراََ ہتھے سے اکھڑ گیا۔

بہت زیادہ غصہ کرنے کے باعث اسکی حالت خراب ہو گئی اور اس کے منہ سے خون بہنے لگا، اپنا خون دیکھ کر وہ ڈر گیا اور ڈرتے ہوئے، وہ اپنے استاد کنفیوشس کے پاس گیا۔ "میں اپنے جسم کا کیا کروں؟" اس نے پوچھا، "مجھے ڈر ہے کہ میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پاؤں گا۔ بہتر ہو گا کہ میں مزید پڑھائی اور کام نہ کروں۔ میں آپ کا شاگرد ہوں، اور آپ ہمیشہ میرے ساتھ باپ کی طرح شفقت سے پیش آتے ہیں، مجھے بتائیں کہ کیا میں اپنے جسم کو مرنے سے پہلے کسی اور کام لا سکتا ہوں؟"

کنفیوشس نے جواب دیا، "تزے لو، تم اپنے جسم کے بارے میں غلط خیال رکھتے ہو۔ تمھاری اندرونی توڑ پھوڑ کا سبب نہ تو پڑھائی ہے، اور نہ ہی اسکول کا کام کاج ہے، بلکہ تمہارا اپنا رویہ، تمھارا شدید غصہ تمھاری اس مصیبت کا باعث ہے"۔

اس معاملے کو گہرائی میں سمجھنے اور حل کرنے میں میں تمھاری مدد کروں گا۔ تمھیں یاد ہے چند دن قبل جب تمھارا اور "نو ووئی" کا جھگڑا ہوا تھا۔ صلح صفائی کے بعد وہ تھوڑی دیر میں دوبارہ پہلے جیسا پرسکون اور خوش باش ہو گیا تھا، لیکن تم نے اپنے غصے پر قابو پانے میں بہت طویل وقت لیا تھا۔ اگر تم اس طرح رد عمل ظاہر کر کے اپنے غصے کی آگ میں تادیر سلگتے رہو گے تو پھر تمھارے لیے طویل زندگی جینا ناممکن ہے۔

جب بھی میرے شاگردوں میں سے کوئی ایک ایسی بات کہتا ہے جسے تم پسند نہیں کرتے ہو تو تم سن کر فوراً بہت زیادہ غصے میں آ جاتے ہو، اس اسکول میں ایک ہزار طلباء ہیں، اگر ہر ایک تمھیں صرف ایک بار ناراض کرتا ہے، تو اس سال غصے سے تمھارا پارا ہزار بار چڑھے گا۔ اگر تم ضبط نفس کا استعمال نہیں کرتے ہو تو بلند فشار خون سے تم یقیناً مر جاؤ گے۔

میں تم سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں۔

"تمھارے منہ میں کتنے دانت ہیں؟"

"میرے پاس بتیس دانت تھے استاد محترم۔ "

"اور زبانیں کتنی ہیں؟"

"صرف ایک۔ "

"تمہارے کتنے دانت ٹوٹ گئے ہیں؟"

"جب میں نو سال کا تھا تو میں نے ایک دانت کھو دیا تھا، اور چار اس وقت جب میں تقریباً چھبیس سال کا تھا۔ "

"اور تمھاری زبان کیا یہ اب بھی پوری طرح مکمل ہے؟"

"جی ہاں۔ "

"تم "من گن" ​​کو جانتے ہو، جو کافی بوڑھا ہے؟" کنفیوشس نے پوچھا۔

"ہاں، میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ "

"تمھارے خیال میں تمھاری عمر میں اس کے کتنے دانت تھے؟"

"میں نہیں جانتا۔ "

"اس کے پاس اب کتنے دانت باقی ہیں؟"

"دو، میرے خیال میں۔ لیکن اس کی زبان بالکل ٹھیک حالت میں ہے، حالانکہ وہ بہت بوڑھا ہے۔ "

"تم نے دیکھا کہ وہ اپنے دانت کھو چکا ہے، حالانکہ وہ زبان سے زیادہ مضبوط اور سخت تھے اور ہر وہ چیز حاصل کرنے کے لیے پرعزم رہتے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ دانت انتہائی سخت ہوتے ہیں اور زبان کو کئی بار تکلیف دیتے ہیں، لیکن زبان کبھی دانتوں کو تکلیف نہیں دیتی۔ پھر بھی، یہ آخر تک برقرار رہتی ہے، جبکہ انسانی دانت مضبوط ہونے کے باوجود زوال کا شکار سب سے پہلے بنتے ہیں۔ زبان پرامن رہ کر ہمیشہ دانتوں کے ساتھ نرم رویہ رکھتی ہے، یہ کبھی بھی غصہ نہیں کرتی اور نہ ان سے لڑتی ہے، چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں۔

دانت کبھی بھی زبان کی مدد نہیں کرتے، لیکن زبان پھر بھی خوراک چبانے کے لیے ان کی مدد کرتی ہے اور کھانے کا بندوبست کرتی رہتی ہے۔ دانت تو ہمیشہ ہر چیز کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ "اور ایسا ہی انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ مزاحمت دکھانے میں سب سے مضبوط، سب سے پہلے زوال پذیر ہوتا ہے، اور تزے لو، تم اگر خود پر قابو پانے کا عظیم سبق نہیں سیکھتے ہو تو جان لو تمھارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ "

Check Also

Hojamalo

By Rao Manzar Hayat