Samaji Chara Gah Mein Paltu Janwar
سماجی چراگاہ میں پالتو جانور
"جس لمحے لکھاری اپنے ماحول سے سازگاری پیدا کر لیتا ہے، اس کا عادی ہو جاتا ہے اور ماحول اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ ایک پالتو جانور میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور ایک کاغذی چیتے کی صورت دھار لیتا ہے۔
جب میرا وطن جل رہا ہو تو میرے لیے غیر جانب دار رہنا ممکن نہیں۔ ادب میں غیر جانب داری موت ہوتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ میں اپنی مریض قوم کے سامنے کھڑا رہوں اور اس کا علاج فقط دعاؤں اور تعویز گنڈوں سے کرتا رہوں۔ جنابِ صدر، جو شخص اپنی قوم سے سچی محبت رکھتا ہے، وہ ماہر طبیب کی مانند مریض قوم کے زخموں کو الکحل سے صاف کرتا ہے اور اگر ضروری ہو تو زخمی حصوں کو داغتا بھی ہے۔
جنابِ صدر میں آپ سے اس مخالفانہ رویے کی شکایت کر رہا ہوں جو ادبی دلالوں اور انا کے پجاریوں کے بیانات سے متاثر ہو کر مصر حکومت نے میرے ساتھ روا رکھا ہے۔ میں اپنی آواز کے سنے جانے سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کر رہا ہوں۔ یہ بات انصاف کے سادہ ترین اصولوں میں سے ہے کہ مصنف کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنے لکھے ہوئے کی وضاحت کر سکے اور مصلوب ہونے والے شخص کو اس بات کی اجازت ہو کہ وہ اپنے صلیب پر لٹکائے جانے کی وجہ دریافت کر سکے۔
جنابِ صدر، میں آپ سے آزادیِ اظہار رائے کا مطالبہ کرتا ہوں، کیونکہ مجھے مصر میں سب وشتم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
پسماندہ معاشروں میں شرفِ عام اور فنی شرف کے مابین خوں ریز معرکہ سرگرم ہوتا ہے اور شاعر کے سامنے صرف دو اختیارات بچتے ہیں، ایک یہ کہ وہ سماجی چراگاہ میں پالتو جانور بن جائے، کھائے پیئے اور نسل بڑھائے، یا پھر یہ کہ اس چراگاہی نظام کی مخالفت کرے، نتیجتاً اپنے شرف سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن اپنی شاعری کو فتح یاب کرا دے۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس چراگاہ سے نکلنے پر کوئی ندامت نہیں، کیونکہ اس کے دن، اس کی راتیں، اس کے مردوں کی باتیں اور ان کی فضحتیں سب ایک جیسی ہیں۔ میں یہاں سے اپنی مرضی سے نکلا ہوں کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہاں رہنے کا مطلب اپنے اور اپنی نظموں کے خون میں کولیسٹرول بڑھانے کے مترادف ہے۔
مترجم: ابو عمش
موجودہ متحدہ عرب ریاستیں جب عرب فیڈریشن مصر سے نکل کر الگ ہو گئیں تو نزار قبانی نے عرب یکجہتی ٹوٹنے پر مزاحمتی شاعری کی اور کالم لکھے جس میں مصری حکومت کی غلطیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس تنقید کے باعث نزار قبانی اور اس کی تحریروں کا مصر میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ شاعر و ادیب نزار قبانی نے اس بےجا ظلم و پابندی کے خلاف بطور احتجاج ایک خط مصری صدر جمال عبدالناصر کو لکھا تھا جس نے بعد میں بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ ظلم و جبر کی اس پابندی کے خلاف نزار قبانی کا لکھا ہوا خط تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔