Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Pappu Aur Chanda

Pappu Aur Chanda

پپو اور چندا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے شہر میں دو پڑوسی، پپو اور چندا رہتے تھے۔ یوں تو وہ دونوں تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے مگر سیاست سے لے کر کھیلوں اور یہاں تک کہ موسم تک مختلف موضوعات کے بارے میں کبھی نہ ختم ہونے والی لاحاصل بحثوں کے لیے پورے شہر میں جانے جاتے تھے۔

انہوں نے ایک دوسرے کی جماعت کا تمسخر اڑانے کے لیے مخالف قائدین اور کارکنان کے ایسے نام رکھے ہوئے تھے جو کوئی بھی شریف شخص سننے کا روادار نہیں تھا۔ زیادہ تر دونوں کی بحث گفتگو کم اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ زیادہ ہوتی تھی جس کا مقصد دوسرے کو نیچا دکھانا یا لاجواب کرنا ہوتا تھا ورنہ اس میں تعمیری پہلو کوئی بھی نہیں ہوتا تھا، جیسا کہ پہلے تو نان ایشوز کو ایشو بنانا اور مخالف کے کمزور پہلوؤں پر سیاست ہوتی تھی، مگر کچھ اس طرح کی باتیں بھی ہوتی تھیں۔

میرے مہاتما کے دور میں مہنگائی اور بیروزگاری کم تھی، نہیں آپ مکار ہیں بلکہ میرے دیوتا کے دور میں مہنگائی چند فیصد تھی۔۔ ایک دوسرے کو جھوٹا، منافق، غدار کہنا، مخالف سیاست کو گند اور گٹر تک بغیر سوچے سمجھے کہہ دیتے تھے۔ ان دونوں کے پاس ایسی ٹیمیں تھی جو منٹوں میں ایسی تصاویر اور ویڈیو تیار کر لیتی تھیں جن میں حقائق کو مسخ کرکے من مرضی کا مواد ڈال دیا جاتا تھا، جیسے، فلاں غدار، فلاں چور اور فلاں کافر ہے، اس مواد کو زیادہ سے زیادہ شئر کرنے کی درخواست کی جاتی اور آگے شئر کرنے والے محض اس لیے ان کے پراپیگنڈا کا آلہ کار بنتے کہ تصویر یا ویڈیو دینے والا پسندیدہ اور اس ویڈیو یا تصویر میں دکھایا گیا شخص یا جماعت ان کی مخالف اور ناپسندیدہ ہے۔

ایک دن، جب وہ دونوں اپنی اپنی بالکنی میں بیٹھے، دہی کی لسی گھونٹ گھونٹ پی رہے تھے، نیلی چڑیا کے پلیٹ فارم پر مختلف ہیش ٹیگز کے ساتھ انہوں نے آنے والے عام انتخاب پر بحث چھیڑ دی۔ پپو سبز پارٹی کا سخت حامی تھا، جب کہ چندا سرخ پارٹی کے متعلق پرجوش تھی۔ ان کے اکثر مباحثے افسانوی ہوتے تھے، جو گھنٹوں تک جاری رہتے تھے، ان کے جذباتیت، حق اور مخالفت میں دلائل دیکھنے والوں کو حیران کر دیتے تھے۔ انہی مباحثوں کی بدولت دونوں نے شہر کی نوجوان آبادی کا بڑا حصہ اپنا حامی اور مخالف بھی بنا لیا تھا۔

جوں جوں انتخابات کا دن قریب آتا جا رہا تھا، پپو اور چندا کی بحثیں شدت اختیار کرتی جارہی تھیں۔ ان دونوں نے اپنے اپنے امیدواروں کی حمایت میں لکھے گئے مضامین، خبریں، کالم، اعدادوشمار اور دیگر حقائق کے لیے انٹرنیٹ کو خوب کھنگالا، دوستوں سے مدد لی۔ تاہم، معلومات کے سمندر کے درمیان، ان میں سے ہر ایک نے صرف اس ڈیٹا کا انتخاب کیا جس سے ان کے پہلے سے تعمیر شدہ تصورات کو تقویت ملی۔

ایک شام، جب وہ امیدواروں کے ٹریک ریکارڈ کے بارے میں بحث کر رہے تھے، پپو نے اعداد و شمار کی ایک فہرست کے ساتھ ایک زبردست دلیل پیش کی جس کے مطابق سبز پارٹی میں وزیراعظم کے امیدوار امید کی کرن اور غریبوں کے مسیحا ہیں، اور وہ منتخب ہوکر قومی خزانہ لوٹنے والے چوروں ڈاکوؤں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ چندا، جو کہ کسی بھی طرح پپو سے کم نہیں ہے وہ ان دلیلوں سے ہار ماننے والی نہیں ہے، لہٰذا اسے فوری طور پر جوابی دلائل اور متبادل اعداد و شمار مل گئے جنہوں نے سرخ پارٹی میں سے وزیراعظم کے امیدوار کو سچا اور کھرا ثابت کیا اور مختلف عالمی سرویز کے نتائج دکھائے جس کے مطابق ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کی حمایت سرخ پارٹی کے رہنما کے ساتھ تھی۔

اس بار چھڑنے والی بحث شروع ہوتے ہی جارحانہ رخ اختیار کر گئی تو ان کے دوست اور پڑوسی اس لاحاصل جنگ کو خوفزدہ ہو کر دیکھتے رہے کیونکہ یہ ماضی میں کئی بار ثابت ہوچکا تھا کہ وہ دونوں اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ مخالفین میں خوبیاں اور پسندیدہ میں خامیاں بھی ہو سکتی ہیں۔

لوگوں نے دونوں کو بارہا بتایا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو لاجواب کرنے اور ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لیے فکری بددیانتی میں مبتلا ہوچکے ہیں جہاں پر حالات و واقعات کا موازنہ کرنےکے لیے ان کا انتخاب ان اعدادوشمار پر ہوتا ہے جو ان کی پارٹی کے حق میں ہوں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کا اپنی پسندیدہ جماعت اور پسندیدہ سیاستدانوں کے لیے دن رات ایک کرنا ان کو نفسیاتی طور پر اس حد پر لے گیا تھا جہاں مخالف پر برتری حاصل کرنے کے لیے انسان کچھ بھی کر سکتا ہے حتیٰ کہ حقائق کو نظر انداز کر سکتا ہے، مسخ کر سکتا ہے یا پھر گالم گلوچ، دھونس زبردستی کرکے قائل کرنا چاہتا ہے۔

جیسے ہی انتخابات کا دن آیا، پپو اور چندا نے اپنے منتخب امیدواروں کے لیے ووٹ ڈالے، اس اعتماد کے ساتھ کہ انھوں نے صحیح انتخاب کیا ہے۔ جب نتائج کا اعلان کیا گیا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی، انتخابات ایک تیسرا فریق جیت گیا تھا، بڑی تعداد میں آزاد امیدوار جیت کر سامنے آ رہے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شہر کی خفیہ قوت نے ایک نئے حربے کے ساتھ ایسے الیکٹ ایبلز کو آزاد حیثیت میں میدان میں اتارا تھا جو ان دونوں کے حمایتیوں کی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے آزاد امیدوار جتوانے میں کامیاب ہوچکی تھی، جیتنے والے آزاد امیدوار، دو پرجوش پڑوسیوں کے سیاسی تعصبات سے بلکل بے نیاز تھے۔

انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور شرابا تو خوب ہوا مگر کوئی بھی اپنی جیت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔

خفیہ قوت نے ایسے ثالث بھیجے جنہوں نے دونوں جماعتوں اور الیکٹ ایبلز کو اکٹھا کرکے مخلوط حکومت بنوا دی۔ اس کے بعد حکومتی مدت ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے اور ایک دوسرے سے بلیک میل ہوتے ہوئے گزر گئی۔

جہاں مفاد اور طاقتور کے اشاروں پر حکومت ہوتی ہو وہاں پپو اور چندا کو سوائے نفرت اور لڑائی کے کیا حاصل ہوا؟ جھنجھنا! جو وہ اگلے انتخابات تک بجائیں گے۔

Check Also

Ghair Islami Mulk Ki Shehriat Ka Sharai Hukum

By Noor Hussain Afzal