Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Mythomania

Mythomania

میتھومینیا

دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے کئی انسانوں میں ایک ایسا عجیب و غریب نفسیاتی عارضہ پایا جاتا ہے جس پر ماہر نفسیات یا طبی ماہرین ابھی تک تحقیق کر رہے ہیں کہ، آیا کہ یہ بذات خود کوئی مرض ہے یا کسی بیماری کی علامات میں سے ہے۔

سفید جھوٹ کے متعلق تو آپ نے سنا ہوگا ہو سکتا ہے کبھی بولنے کی نوبت بھی آ گئی ہو، اچانک پکڑے جانے پر یا غیر متوقع صورتحال سے جان چھڑانے کی خاطر کچھ لوگ فوراً ایسی بات گھڑ لیتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس بات کا مقصد یا تو اپنی جان چھڑانا ہوتا ہے یا کسی کی جان بچانا یا پھر لوگوں کی توجہ کو ہٹانا ہوتا ہے، اسے سفید جھوٹ کہتے ہیں۔ جھوٹ کا عمل ہماری سماجی زندگی میں ایک عام عمل بن چکا ہے۔

مگر ایسا جھوٹ جو بلاوجہ اور بلا ضرورت بولا جائے، نہ بولنے والے کو اس سے کوئی فائدہ ہو اور نہ سننے والے کو تو جھوٹ کی یہ شکل سب سے بدترین سمجھی جاتی ہے۔ ایسا جس کو بولنے والے لوگ جھوٹ مانتے ہی نہیں، ایسے افراد جو آئے روز اپنے ذہن میں نت نئی اساطیری یا افسانوی دنیا تخلیق کرتے رہتے ہیں پھر اپنے ملنے، سننے اور جاننے والوں کو اس فرضی دنیا کے متعلق باور کراتے ہیں کہ حقیقت میں ایسی چیزوں یا ایسی دنیا کا وجود ہے۔ وہ کسی بھی واقعے یا کسی بھی بات کا ایسا جھوٹا بتنگڑ بناتے ہیں کہ الگ سے نئی بحث چھڑ جاتی ہے۔

جھوٹ بولنے کا سماجی کوئی فائدہ یا نقصان نہ بھی ہو تو جھوٹ بولنے والے کو سنگین نفسیاتی حالت میں مبتلا کر سکتا ہے، اس دماغی خلل کو نفسیات کی زبان میں Mythomania کہا جاتا ہے۔ نفسیات کی زبان میں، mythomania کو مزید آگے pseudological fantastica یا pathological lying کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کسی فرد کی ایسی ذہنی حالت ہے جس میں کوئی واضح محرک کے بغیر زبردستی جھوٹ بولنا شامل ہے۔ جو شخص اس نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے جھوٹ کو سچ ماننے کا عقیدہ رکھتا ہے اور پھر دوسرے غیر حقیقی بیانات کو ساتھ ملا کر اپنے جھوٹ کے بارے میں مزید وضاحتیں بھی دیتا ہے۔

ان کی چند علامات کا ذکر کروں گا۔

آپ سے گزارش ہے کہ ان علامات کو مخالف سیاسی جماعت یا مخالف سیاسی قیادت میں ڈھونڈنے کی بجائے اپنے اندر اور اپنے پیاروں کے اندر ڈھونڈنے کی کوشش کیجئے گا۔

میتھومینیا Mythomania میں مبتلا افراد کی چند علامات:

اکثر اپنے ماضی یا حال کے بارے میں ڈرامائی باتیں یا جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں، دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے واقعات کی ہر کہانی میں وہ باقاعدگی سے خود کو ہیرو یا پھر مظلوم کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں۔

وہ یہ بتانے کے لیے بھی جھوٹی باتیں بناتے ہیں کہ انھوں نے فلاں جھوٹ کیوں بولا تھا۔

ان کے جھوٹ اکثر پیچیدہ طرز کے ہوتے ہیں اور ان میں سے حقیقت کو اخذ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کے بقول ان کے ساتھ پیش آنے والے حادثے یا واقعے کا کوئی گواہ بچا ہی نہیں یا روپوش ہیں، یا پھر کسی بااثر شخص نے انہیں عوامی مفاد کے لیے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا تھا، اتنے بڑے بڑے جھوٹ میں بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے لیے کوئی واضح فائدہ نہ ہو۔ کیوں کہ لوگوں کا غلط کام چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔

تاہم، mythomaniac کے مرض میں جھوٹے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا یا پھر فائدہ وقتی طور پر واضح نہیں ہوتا ہے۔

ماضی میں کی گئی باتوں یا سنائی ہوئی کہانیوں کو دہرانے میں انہیں ہمیشہ دشواری ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ان کی کہانیاں ایک ہی نشست کی گفتگو میں کئی بار بدل سکتی ہیں۔

بار بار لاتعداد نت نئے جھوٹ بولنے سے وہ اپنی کہانیوں کو یاد رکھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور جب ماضی کی کوئی بات انہیں یاد کروائی جائے یا اپنے کہے ہوئے جھوٹ سے سامنا ہو جائے تو وہ فوراً دفاعی مگر جارحانہ انداز اختیار کرتے ہیں اور آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کا سوال کرنے کا انداز ہی گھٹیا ہے، یا آپ پوچھ گچھ کرنے میں ہی غلط ہیں۔

وہ جھوٹ بولنے کے نتائج کی پرواہ نہیں کرتے۔

وہ اپنے بارے میں بات کرتے وقت اپنی کہانیوں کو حقیقی ثابت کرنے کے لیے بنا سنوار کر پیش کرتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اسے دوسرے لوگ سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں تو وہ سنسنی پیدا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو نہایت منفی انداز میں لیتے ہوئے تنقید کو اپنی ذات پر حملہ سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ وہ سرزنش یا تنقید کا سامنا نہیں کر سکتے، یا جب کوئی ان پر تنقید کرتا ہے، یا کسی بات پر انہیں اپنا رویہ درست کرنے کا کہا جائے تو وہ اسے ماننے یا سمجھنے کی بجائے فوراً سامنے والے کے رویے کی شکایت کریں گے اور اس کو حقارت سے کہیں گے پہلے میرے مقابلے کی حیثیت بنا لو پھر مجھ سے بات کرنا۔

وہ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ہی سمجھتے ہیں۔

وہ دوسروں سے انتہائی حسد کا شکار ہو سکتے ہیں، عمومی باتوں کو ذاتی عناد میں تبدیل کر دیتے ہیں اور پھر اپنا غصہ خاندان کے افراد اور دوستوں پر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب بھی ان کی ذات یا ان کی ذاتی کامیابی کے متعلق پوچھا جائے تو وہ ہمیشہ گھما پھرا کر جواب دیتے ہوئے اصل بات گول کر جاتے ہیں۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari