Kharian Street
کھاریاں اسٹریٹ

پاکستانی ڈائسپورا جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہ رہا ہے۔ ان کے پاس آسائشوں کی کوئی کمی نہیں، وہ محفوظ ترین شہروں میں بستے ہیں، جدید ترین سہولتوں سے آراستہ گھروں میں زندگی گزارتے ہیں، مگر پھر بھی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں ہیں۔ وہ دن رات کام کرتے ہیں، چھٹیاں، صحت، رشتے سب کچھ قربان کرتے ہیں، وقت کو پیسے میں بدلتے ہیں اور ہر وقت اس اندیشے میں جیتے ہیں کہ اگر ذرا سا وقفہ لیا یا آرام کیا تو کہیں پیچھے نہ رہ جائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ پیچھے کس سے؟ اور آخر جانا کس منزل تک؟
نفسیات کہتی ہے کہ جب انسان کا بیرونی نظامِ حیات مکمل ہو جاتا ہے یعنی مالی تحفظ، سماجی وقار اور مادی آسائشیں حاصل ہو جائیں تو اس کے اندر ایک نادیدہ خلا جنم لیتا ہے۔ یہ خلا دراصل روح کی صدا ہوتی ہے جو معنی کی تلاش میں بے چین ہے۔ مگر جب انسان اس صدا کو نظرانداز کرتا ہے تو وہ ایک ایسے دائرے میں داخل ہوتا ہے جسے ماہرین existential loop کہتے ہیں، ایک ایسا تسلسل جہاں انسان معنی کی بجائے عمل کو دہراتا رہتا ہے، وہی دوڑ، وہی مشقت، وہی بے مقصد جمع کرنے کی بے انتہا خواہش۔
پاکستانی ڈائسپورا کی نفسیاتی تشکیل اسی خلا کی پیداوار ہے۔ ان میں سے اکثر نے ہجرت صرف بہتر روزگار کے لیے نہیں کی، بلکہ تحفظ، عزت، شناخت اور نام کے لیے کی۔ مگر جب نئی سرزمین نے انہیں تحفظ تو دیا، مگر مٹی سے جڑت کا جذباتی تعلق نہ دیا، تو وہ اندر سے ٹوٹنے لگے۔ ان کے پاس دولت آئی، مگر بنیاد سے رشتہ چھوٹ گیا۔ وہ والدین کے لمس، بچپن کی گلیوں اور اپنے پن کی خوشبو سے دور ہو گئے۔ چنانچہ دولت ان کے لیے محض شناخت کا نعم البدل بن گئی۔ ایسی شناخت جس کے پیچھے کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا۔
یہی وہ لوگ ہیں جو جب وطن واپس آتے ہیں تو اپنے گاؤں کے کسی چوک کو "اوسلو چوک" بنا دیتے ہیں اور جب مغرب میں ہوتے ہیں تو وہاں کسی گلی کا نام "کھاریاں اسٹریٹ" رکھ دیتے ہیں۔ یہ صرف نام نہیں، بلکہ ذہنی کشمکش کی علامتیں ہیں۔ وہ اپنی مٹی سے جڑے رہنا بھی چاہتے ہیں اور مغرب کی شناخت سے فخر محسوس کرنا بھی۔ ان کی زندگی دو انتہاؤں کے درمیان معلق ہے، ایک ماضی جسے وہ بھول نہیں پاتے اور ایک حال جس میں وہ مکمل طور پر ڈھل نہیں پاتے۔
گاؤں کی تنگ گلیوں میں جب وہ مغربی لباس پہنے اپنی بڑی بڑی گاڑیاں اور لیموزینیں لے کر آتے ہیں، تو وہ صرف سماجی حیثیت یا دولت کی نمائش نہیں بلکہ اس مصنوعی پن سے ان کی اپنے آپ کو یقین دلانے کی ایک کوشش ہوتی ہے کہ وہ اب کسی بڑے دائرے کا حصہ ہیں۔ اسی طرح جب وہ مغرب کی کشادہ صاف ستھری سڑکوں پر دیسی لباس پہنے گھوڑے یا بگھیاں لے کر نکلتے ہیں تو وہ اپنے ماضی کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عمل لاشعوری سطح پر cultural displacement یا Diasporic identity conflict کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسی کیفیت جہاں انسان نہ پوری طرح اپنی اصل میں ہوتا ہے، نہ نئے وجود میں۔
نتیجتاً، ان کی شخصیت تضادات سے بھری ہوتی ہے۔ وہ خود کو جدید کہتے ہیں مگر ماضی کی زنجیروں میں جکڑے رہتے ہیں۔ وہ مغربی نظام کا حصہ ہیں مگر مشرقی فکرکے بوجھ تلے دبتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بے تحاشا کمانے والے اپنی دولت کو سائنسی ایجادات اور دنیا بھر میں فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے وقف کردیتے ہیں، مگر پاکستانی ڈائسپورا کی اکثریت کے لیے اندھا دھند پیسہ کمانا، زمین، جائیداد، فارم ہاؤس بنانے کے علاوہ کسی بڑے مقصد کا حصہ نہیں رہا بلکہ بے مقصدیت سے کمانا اور پھر بے معنویت سے زندگی بسر کرکے خون پسینے کی کمائی کو اگلی نسلوں کی عیاشی کے لے چھوڑ کر مر جانا۔
تارکین وطن میں لاکھوں لوگ اپنی جوانی والدین اور بہن بھائیوں کے بغیر گزارتے ہیں اور بڑھاپا بیوی بچوں سے دور۔ ان کے دکھ اور کامیابیاں دونوں تنہائی میں جنم لیتی ہیں۔ وہ کبھی بھی خود سے یہ سوال نہیں کرتے کہ میں کس لیے کما رہا ہوں؟ بلکہ ہر بار اس بھاگ دوڑ کو کامیابی اور قربانی کا نام دے کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر نفسیات بتاتی ہے کہ انسان اگر اپنی اصل سے کٹ جائے تو دنیا کی ساری آسائشیں بھی اس کے اندر کا خلا نہیں بھر سکتیں۔
شاید اصل سوال یہی ہے یہ لوگ کیا کما رہے ہیں، پیسہ یا زندگی، کس لیے کما رہے ہیں؟ اور کس سے بھاگ رہے ہیں؟
انہوں نے شاید دنیا فتح کر لی، مگر خود اپنی کنفیوژن کو نہ دور کر سکے۔ میرے نزدیک ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ معاشی خوشحالی اگر جذباتی وابستگی اور داخلی سکون کے بغیر ہو تو وہ غیر مرئی حسین قفس ہے، جس میں پرندہ آزاد اور ہشاش بشاش دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے اس کی موت واقع ہوچکی ہوتی ہے۔

