Kabhi Himmat Na Haren
کبھی ہمت نہ ہاریں
بین الاقوامی ناول نگار گیبرئیل گارسیا مارکیز انٹرویو کے دوران کہتے ہیں:
جب میں نے ناول "تنہائی کے سو سال" کو مکمل کیا تو ناول کا ضخیم مسودہ 700 صفحات پر محیط تھا۔ میرے پاس ناول چھاپنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میں نے ناول کا مسودہ لیا اور اپنی بیوی کے ہمراہ ڈاکخانے چلا گیا، وہاں کلرک کو کہا کہ اسے ارجنٹائن میں پوسٹ کرنا ہے۔ اس نے مسودے کو ترازو میں رکھ کر تولا اور کہا وزن کے حساب سے اس پر میکسیکن 83 پیسو کی فیس ادا کرنا ہوگی۔ میری بیوی کہنے لگی ہمارے پاس تو کل ملا کر 45 پیسو ہیں۔ اب کیا ہوگا؟
کلرک کہنے لگا، دیکھو گیبرئیل تمہاری سہولت کے لیے میں ایسا کر سکتا ہوں کہ وزن کے حساب سے 45 پیسو میں جتنے اوراق جا سکتے ہیں وہ ابھی بھیج دیتا ہوں۔ میں نے کہا چلو ایسا کر لو، تو کلرک نے قصائی کی طرح مسودے کو کاٹ کر تقسیم کیا اور 45 پیسو میں جتنا وزن جا سکتا تھا اتنا حصہ پوسٹ کرکے باقی مسودہ میرے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد ہم دونوں میاں بیوی گھر آ گئے، اور گھر آ کر میں نے بیوی سے کہا گھر میں اگر کچھ ایسا ہے جسے فروخت کرکے کچھ رقم مل جائے تو وہ لے آؤ۔
تو وہ ایک ہیٹر لے آئی جس کے قریب بیٹھ کر میں لکھنے کا کام کرتا تھا۔ کیونکہ میں ہر طرح کے موسم میں لکھ سکتا تھا سوائے موسم سرما کے، اس کے علاوہ ایک ہیر ڈرائیر اور ایک جوسر مشین مل گئی۔ ان سب کو کباڑیے کے ہاتھ فروخت کیا تو 50 پیسو مل گئے۔ باقی مسودے کو لیکر ڈاکخانے گئے اور کلرک کو کہا کہ اب اس باقی ماندہ حصے کو بھی پوسٹ کر دو۔ اس نے وزن کیا اور کہا اس کی فیس 48 پیسو بنے گی۔ میری بیوی نے اسے 50 پیسو دیئے تو اس نے 48 پیسو کاٹ کر 2 پیسو واپس کر دئیے۔ اور یوں مسودہ ناشر کو پوسٹ ہوگیا۔
میری بیوی جب گھر آئی تو وہ شدید غصے میں تھی اور کہنے لگی اس ناول کی وجہ سے ہمارا جتنا نقصان ہوا ہے اس حساب سے یہ ناول ہمارے لیے منحوس ہی ثابت ہوگا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ناول "تنہائی کے سو سال" تاریخ میں سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول بن گیا اور 1982 میں اس ناول کے باعث گیبرئیل گارسیا مارکیز نے ادب کا نوبل انعام بھی جیت کر اپنے نام کر لیا۔
کبھی ہمت نہ ہاریں، مستقل مزاجی سے ڈٹے رہیں آپ اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے۔