Janiye, Wo Jo Aap Pehle Se Nahi Jante
جانیے، وہ جو آپ پہلے سے نہیں جانتے
پرانے وقتوں کی بات ہے جب برصغیر میں پنجاب کو کاشتکاری کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ ہمالہ سے پھوٹنے والے ساگروں کے کناروں پر آباد علاقوں میں جب نہری نظام نہیں تھا اس وقت زمین کی تیاری کرنا، اس میں بیج بو کر پانی کا بندوبست کرنا اور پھر فصل کاشت کرنے کے بعد اس کی حفاظت کو یقینی بنانا، فصل پکنے پر اس کی کٹائی کرنا، ٹھیلوں پر اور کسانوں کا اپنی پشت پر لاد کر کچے پکے رستوں سے گزر کر دور دراز کے گاؤں تک اناج کو پہچانا اور پھر حسب القسم الگ الگ جگہوں پر دھوپ، بارش سے محفوظ کرنا انتہائی مشقت کا جان جوکھم والا کام تھا۔ اس کارِ دشوار کو انجام دینے کے لیے اور ہمہ وقت متحرک رہنے کے لیے کسانوں کو دوسرے افراد کی نسبت زیادہ طاقت کی ضرورت تھی۔
جس طرح ہر علاقے کے رسم و رواج کے مطابق وہاں کے علاقائی کھانے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح پنجاب میں بھی ریتی رواج کے مطابق کھانوں میں ذائقے کی بہ نسبت غذائیت کی طرف زیادہ دھیان دیا جاتا تھا۔ پنجاب کے کسانوں میں دیسی حساب کتاب کے مطابق ایسے کھانوں کی ضرورت تھی جو شکم کی بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ جسم کے لیے انتہائی "گرم" ثابت ہوں تاکہ دن بھر کی مشقت سے ٹوٹ کر چور ہوتے بدن کا علاج بھی ہو سکے اور تھکن زدہ پٹھوں کا کھنچاؤ بھی دور ہو سکے۔
پنجاب میں گائے اور بھینس کے دودھ سے کشید کردہ مکھن سے بننے والے "دیسی گھی" کو کھانوں کا سردار مانا جاتا تھا۔ عورت کے ہاں زچگی ہو، یا پہلوانوں نے کسرت کرنی ہو، پرانی چوٹ، جسمانی درد، سرد موسم ہو یا زمین کا سینہ چیر کر اناج کے ڈھیر نکالنے کے لیے قوت و طاقت درکار ہو، ان سب کا ایک ہی حل ہوتا تھا اور وہ تھا دیسی گھی۔ دیسی گھی کو کھانوں میں مختلف طریقوں سے استعمال کرتے کرتے اچانک اہل پنجاب کے ہاں ایک ایسی چیز ایجاد ہوگئی جس نے کسانوں کی زندگی بدل کر رکھ دی یا یوں کہہ لیں کہ کسانوں کو نئی زندگی عطا کر دی۔
دو ہزار برس قبل مسیح جب گندھارا تہذیب و تمدن کو عروج حاصل تھا اس وقت ہمالہ سے نکلنے والے دریاؤں میں پانچ دریاؤں کا تصور بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب میں ویدک سنسکرت کا لفظ "پنجا ندہ" کا تذکرہ ملتا ہے جس کا مطلب پانچ دریا ہے۔ بعد میں مرور زمانہ کے مُطابق سنسکرت کا پنجا اور فارسی کا آب مل گئے جس سے اصطلاحی نام پنجاب وجود میں آگیا۔
پنجاب میں جہاں دیسی گھی کو کھانوں میں بادشاہ جیسا درجہ حاصل تھا وہاں ہی برِصغیر کا مقامی پودا "زیرہ کا پودا" بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس پودے سے حاصل ہونے والا "زیرہ" بھی طاقت و توانائی کا منبع مانا جاتا تھا۔ پنجاب میں تیسری خالص اور توانائی سے بھرپور چیز کماد سے کشید کردہ رس سے بننے والی چیز "گڑ" کو سمجھا جاتا تھا۔ چوتھی اور سب سے اہم چیز کا درجہ " گندم" کو حاصل تھا۔ پانچویں چیز جس پر زندگی کا دارومدار تھا وہ تھا پنجاب کے دریاؤں کا "پانی"۔
اہل پنجاب کے کسان جب کاشتکاری کے لیے دن بھر گھر سے باہر رہتے تو گھریلو خواتین اپنے گھر کے مَردوں کی دیکھ بھال کے لیے کھانوں کے نت نئے تجربات کرتی رہتی۔ انہی تجربات کی بدولت خواتین نے "پانچ" چیزوں کے مرکب سے ایک ایسا کشتہ تیار کر لیا جس نے کسانوں کے جسم میں بجلی بھر دی، جس کے باعث سخت سردی کے موسم میں گندم کی فصل کاشت کرنا اور سخت گرمی کے موسم میں فصل کاٹنا اب پہلے جیسی جان لیوا مشقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔
گندم کو ایک رات کے لیے پانی میں بھگو کر رکھ دیا جاتا تھا۔ جب گندم کے دانے خوب پانی پی کر پھول کر نرم ہو جاتے تو پھر انہیں بڑے برتن میں کوٹا جاتا۔ دیسی گھی کو گرم کر کے اس میں کوٹی ہوئی نرم گندم کو بھونا جاتا، بعد میں گڑ اور زیرہ ملا کر اس کشتے کو مزید مزیدار بنایا جاتا۔ پانچ اشیاء کے مرکب سے بننے والی سوغات کو پنجاب کے نام سے "پنج کا سابقہ عطا ہوا اور "زیرہ" سے "زیری" بنا کر پنج کے ساتھ زیری کا لاحقہ لگا دیا گیا۔
تغیرات و حوادث زمانہ کے ساتھ ساتھ ان دنوں اس کشتے میں پانچ اشیاء کی جگہ پچاس مختلف چیزوں نے لے لی ہے اور "پنج زیری" سے "ز" کو کھا لیا گیا ہے جس کے بعد صرف "پنجیری" بن کر رہ گئی ہے۔ آج ہندوستان و پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں"پنجیری" کو بہترین سوغات اور دیسی مٹھائی کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ لوگ گرم و سرد موسم میں اس سوغات کو خود بھی کھاتے ہیں اور مہمانوں کو بھی پیش کرتے ہیں۔ آج ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو معلوم پڑتا ہے کہ پنجیری جس مقصد کے لیے ایجاد کی گئی تھی وہ مقصد تقریباً فوت ہو چکا ہے۔
اب لوگ پنجیری کھانے سے پہلے اور بعد میں کوئی بھی محنت مشقت والا کام نہیں کرتے نہ ہی وہ کھانے کی سائنسی اعتبار سے غذائیت کے متعلق علم رکھتے ہیں۔ لوگ خوراک کی تاثیر کو گرم و سرد کے حساب سے تو سمجھتے ہیں مگر کیلوریز (پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، مائیکرو نیوٹرینٹس، چکنائی وغیرہ کا مجموعہ) سے ناواقفیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے جسم کو مطلوبہ مقدار میں کیلوریز فراہم کرنے یا زیادہ کیلوریز کو ختم کرنے سے انجان ہیں۔ اور صحت کے اکثر ایسے مسائل جو انتہائی خطرناک اور جان لیوا ہیں وہ انہی " کیلوریز" سے لاعلمی اور کیلوریز کے گھٹنے یا بڑھنے کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔
اس موسم میں آپ کو یقیناً پنجیری کھانے کا بہانہ چاہیئے ہے لیکن اس سے پہلے یا تو کسانوں کی مانند مشقت کریں یا پھر ماہرین سے اپنے بدن کی مطلوبہ کیلوریز کی جانکاری حاصل کریں۔