Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Jam Kar Khare Raho

Jam Kar Khare Raho

جم کر کھڑے رہو

1997 میں کھیلے گئے آزادی کپ کے دوران سعید انور نے 194 رنز کی ریکارڈ اننگ کھیلی جو اس وقت کا بہترین اور شاندار اسکور تھا۔ سعید انور سے جب اس ریکارڈ پر بات چیت ہوئی تو کہنے لگے، مجھ سے زیادہ رن نہیں بن پا رہے تھے تو ڈریسنگ روم میں ایک سینئر کھلاڑی نے کہا سعید انور تم کریز پر جم کر کھڑے رہو رنز خود بخود بنتے جائیں گے۔ پھر وہی ہوا پوری دنیا نے دیکھا سعید انور 206 منٹ تک کریز پر کھڑا رہا رنز بنتے رہے اور سر ویون رچرڈ کا 189 کا ریکارڈ توڑتے ہوئے انڈیا کے چھکے چھڑا دیے۔

زندگی بھی یونہی ہے، آپ کو لمبی اور ریکارڈ اننگ کھیلنے کے لیے مسلسل جم کر کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ عملی زندگی میں ریکارڈ بنانے تک نہ ہی کوئی ویک اینڈ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی چھٹیاں۔ آپ مسلسل کام کرتے کرتے کسی گیند کے متعلق غلط اندازہ لگاتے ہوئے آؤٹ ہو جاتے ہیں اور اس دنیا سے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ زندگی جس قدر حسین اور مہربان ہے اس سے بڑھ کر بے رحم بھی ہے۔

آج کل میں آپ سب کی راہنمائی کے لیے متنوع موضوعات پر لکھتا ہوں، جیسا کہ گزشتہ دنوں لکھا کہ اپنا تعلیمی سفر کیسے منتخب کریں، اس کے علاوہ عربی اور انگریزی ادب کے تراجم کرتا ہوں اور جب میرا خود کا وقت تھا اس وقت کی بات ہے نہ ہی کوئی بتانے والا تھا کہ کریز پر کھڑے رہو، جمے رہو اور نہ ہی اتنے زیادہ مواقع ہوتے تھے کہ انتخاب کا مسئلہ ہوتا۔ پرانے وقتوں کے پڑھے ہوئے کچی پکی جماعت سے لیکر دسویں جماعت تک تعلیمی ریکارڈ اتنا شاندار تھا کہ اول، دوم، سوم تینوں پوزیشنیں ہم تین جگری دوستوں کے درمیان ہی رہتی تھیں اور دس سال ہمارے درمیان محض ایک آدھ نمبر کا ہی فرق رہا۔

میرا سکول ارد گرد کے سات دیہاتوں کا واحد سرکاری سکول تھا اور اس وقت تو دیہاتوں میں پرائیویٹ سکولوں کا رواج نہیں تھا۔ اس کے باوجود پڑھائی میں ہم تینوں کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک وقت میں دولت کی ریل پیل اتنی تھی کہ اردگرد کے دیہاتوں میں ہمارا گھر وہ پہلا گھر تھا جس کی چھت لوہے (ٹی آر اور گارڈر) والی تھی کہ سینکڑوں لوگ دیکھنے کے لیے آئے کہ یہ چھت کیسی ہوتی ہے، ان سب کے لیے طعام کا بندوبست کیا گیا تھا۔

وقت نے کروٹ بدلی دسویں جماعت میں ہی تھا جب حالات اتنے دگرگوں ہو گئے کہ پڑھائی کے ساتھ، بڑے کنبے کی ذمہ داریاں، جانوروں، زمین کو سنبھالنے کے ساتھ 30 روپے یومیہ اجرت پر مزدوری بھی کرنے لگا۔ میٹرک پاس کر لی تو سات دیہاتوں کی مشہور مثلث تینوں لائق فائق دوستوں میں سے ایک دوست انجینئرنگ کالج چلا گیا، ایک کامرس کالج چلا گیا اور میں نے اپنے خوابوں کو اپنے بستے میں بند کیا اور سرخ و سفید رنگت والا لڑکا جس کی مَسیں بھی نہیں بھیگی تھی وہ ٹھیکیدار کی سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر مزدوری کرنے چلا گیا۔

اس کے بعد روزی روٹی کمانے، ملازمتیں، کاروبار، پڑھائی سمیت تمام سود و زیاں کا طویل اور مسلسل سفر ہے، فٹ پاتھ پر بھی سوتا رہا، کئی سیٹھ اور ساہو کار اس بچے کی مزدوری کھا جاتے تھے، مگر جب زندگی مہربان نہ ہو تو لوگوں سے شکوہ بنتا نہیں، سو ساری زندگی کسی سے نہ صلہ طلب کیا نہ ہی شکوہ شکایت کی۔ جو ملا اس پر شکر کیا اور جو نہ ملا اس کے لیے مزید کوشش کی اور ایک وقت آیا کہ بادشاہ کے محل سے کھانا آتا جس پر میرا نام لکھا ہوتا تھا۔ عملی زندگی کے کم و بیش 27 سال ہو چکے ہیں کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرا جس میں پڑھائی اور کمائی کا ساتھ چھوٹا ہو۔

گو کہ الحمدللہ آج میری مزدوری ایلیٹ قسم کی ہے، جس بستے میں خواب اور کتابیں بند کی تھیں، اب اس بستے میں بے شمار عصری و مذہبی علوم کی ڈگریاں، سرٹیفکیٹ، میڈل، انگریزی، عربی زبان پر عبور کے ڈپلومے رکھے ہیں، پھر بھی آج اپنے تجسس کی خاطر دنیا بھر کے مختلف تعلیمی اداروں کا طالب علم بھی ہوں، مزدور بھی ہوں اور ہر روز پانچ چھ گھنٹے پڑھنا، ریسرچ کرنا، اسائنمنٹ لکھنا، آن لائن سیشنز کرنا، کتاب پڑھنا، کچھ ڈیجٹل اور کچھ زمینی دھندے کرنا، مفت میں لوگوں کے مسئلے سننا اور بساط بھر حل بتانا اور چند سطروں کو سوشل میڈیا کی نذر کرتا ہوں، اس کے باوجود خود کو بیوی بچوں کو اور دوستوں کو بھرپور وقت دیتا ہوں۔ اور یہ سب خدائے لم یزل کا فضل ہے ورنہ

"ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے"

میں لکھنے سے کماتا نہیں ہوں مگر کمانے کے ساتھ لکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ شاید لکھنا میرا کتھارسس ہے اور پڑھنا میرا رزق ہے۔

تو دوستو زندگی کسی پر گزرتی ہے اور کسی پر بیتتی ہے، جب یہ بیت رہی ہوتی ہے تو گرد و پیش کا ہوش نہیں رہتا، اور جب بیت جاتی ہے تو پھر ہی ہم نقطے سے نقطہ ملا کر کوئی کہانی بُننے کے قابل ہوتے ہیں۔ مگر جو بھی ہو رن بنانے کے لیے ہر حال میں زندگی کی کریز پر جم کر کھڑا رہنا پڑتا ہے۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra