Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Insan Ki Baqa

Insan Ki Baqa

انسان کی بقا

میرے بچپن میں گاؤں کی زندگی کے رنگ مجھے کچھ اس طرح سے یاد ہیں کہ صبح کے وقت کچھ گھروں سے بچے اور بڑے ہاتھ میں ڈول لیے نکلتے اور زمینداروں کے گھروں سے لسی لے کر واپس جاتے۔ کئی خاندانوں کا ناشتہ اسی لسی پر ہوتا۔ یہ ایک ایسا رواج تھا جس میں بظاہر صرف ایک پیالہ لسی تھی، مگر دراصل یہ پورے گاؤں کی معاشرت اور نفسیات کی تصویر تھی۔

اگر غور کیا جائے تو یہ رواج ہمیں انسان کی اجتماعی نفسیات (collective psychology) سمجھاتا ہے۔ لسی دینے والے کے نزدیک یہ کوئی مذہبی فریضہ نہ تھا، نہ ہی احسان بلکہ اس کے لیے محض ایک سماجی ذمہ داری تھی، مگر لینے والے کے لیے یہ بقا کا ذریعہ تھا۔ یہاں ہمیں فطری اصول کی جھلک دکھائی دیتی ہے کہ زندگی صرف انفرادی نہیں، بلکہ باہمی تعاون سے جڑی ہوئی ہے۔

ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کی بقا کا سب سے بڑا راز اس کے سماجی رویوں میں ہے۔ ابراہم ماسلو کے مطابق بنیادی جسمانی ضروریات (کھانا، پانی) کے بعد دوسرا درجہ سماجی رشتوں اور تعلقات کا ہے۔ یہی تعلقات انسان کو تحفظ، سکون اور مانوسیت دیتے ہیں۔ گاؤں میں لسی مانگنے اور دینے کا یہ عمل دراصل اسی ضرورت کی تکمیل تھا۔

مگر اس رواج کا ایک اور پہلو بھی ہے طاقت اور طبقاتی فرق۔ لسی دینے والا زمیندار تھا اور لینے والا مزارع، مزدور یا گاؤں کا عام گھرانہ۔ یہ تعلق ہمیں یہ بھی دکھاتا ہے کہ سماج میں وسائل کی تقسیم ہمیشہ برابر نہیں ہوتی۔ ایک طرف باہمی تعاون تھا، دوسری طرف ایک خاموش انحصار (dependency) بھی۔ یہی وہ نفسیاتی کیفیت ہے جسے آج کے دور میں بھی دیکھا جا سکتا ہے: کچھ لوگ وسائل بانٹتے ہیں اور کچھ لوگ وسائل کی کمی کے باعث انہی پر اپنی روزمرہ زندگی کا انحصار رکھتے ہیں۔

اصل نکتہ بھی یہی ہے کہ انسانی معاشرے میں اجتماعی بقا انفرادی آزادی سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، چاہے وہ لسی کا ڈول ہو یا جدید دور میں ایک تنخواہ، ایک نوکری، یا ایک سماجی سہارا۔ فرق صرف یہ ہے کہ گاؤں کی سادہ زندگی میں یہ انحصار کھلے عام تھا، جبکہ آج شہروں میں یہ انحصار مختلف شکلوں میں پردے کے پیچھے ہے۔

یاد رکھیں دوسروں کے ساتھ بانٹنا صرف سخاوت نہیں، بلکہ یہ انسانی نفسیات کی بنیادی ضرورت ہے۔ جس سماج میں بانٹنے کا رواج ختم ہو جائے، وہاں رشتے بھی کمزور پڑ جاتے ہیں اور جو رشتے کمزور پڑ جائیں، وہ سماج کبھی پائیدار نہیں رہتا۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed