Hum Kitne Muyassar Hain?
ہم کتنے میسر ہیں؟

زندگی میں ناخوشگوار لمحات اور احساسات آنا فطری ہے۔ اکثر یہ عارضی ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں، مگر جب یہ کیفیت مستقل ہو جائے تو اسے شدید تناؤ یا اضطراب کہا جاتا ہے۔ بعض نوجوان اس اضطراب کو اتنی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ گھٹن اور بےچینی ان پر غالب آ جاتی ہے، مگر وہ اسے پہچان نہیں پاتے۔
فلسفیوں کے نزدیک یہ صرف بیماری نہیں بلکہ ایک وجودی تشویش ہے۔ ہائیڈیگر کے مطابق یہ ہمیں اپنی ناپائیداری اور تنہائی کا احساس دلاتی ہے۔ کیرکیگارڈ کے نزدیک یہ اپنی آزادی اور ذمہ داری کا بوجھ ہے، جبکہ سارتر نے کہا کہ یہ احساس اس وقت شدت اختیار کرتا ہے جب انسان کو سمجھ آتا ہے کہ اپنی زندگی کا بوجھ وہ اکیلا اٹھاتا ہے۔
حقیقت میں عام انسان اس کو نظریاتی بحث یا فلسفے کی بجائے ذاتی کرب کے طور پر جھیلتا ہے۔ اس کیفیت کو سمجھنا مشکل ہے، بیان کرنا اس سے بھی مشکل اور اگر کوئی بیان کر بھی دے تو شنوائی میسر نہیں آتی۔ فرائیڈ نے کہا تھا کہ جس دکھ کو بیان نہ کیا جائے وہ جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں ڈھل جاتا ہے۔
جدید معاشرے میں پڑوسی پڑوسی سے انجان ہیں۔ رویوں کا یہ فقدان محض سماجی کمی نہیں بلکہ ایک نفسیاتی بحران ہے۔ ژونگ نے کہا تھا کہ سب سے بڑی انسانی ضرورت یہ ہے کہ کوئی ہمیں سن لے اور ویسا ہی قبول کرے جیسے ہم ہیں۔ مگر آج کے معاشرے میں ہر کوئی سننے کے بجائے اپنی بات کرنے میں مصروف ہے۔
یہی خلا مشینوں نے پُر کرنا شروع کیا ہے۔ چیٹ بوٹس اور مصنوعی ذہانت وہ کان فراہم کرتے ہیں جو انسانوں نے چھین لیے ہیں۔ وہ فوری جواب دیتے ہیں، جج نہیں کرتے، مگر ان میں وہ دل نہیں جو زخم کو بھر سکے۔ کیونکہ عقل کے بغیر انسان کچھ نہیں اور دل کے بغیر انسان بھی محض ایک مشین ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے کتنے میسر ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں، دوستوں اور ساتھیوں کے لیے وہ کان اور وہ دل رکھتے ہیں جو سننے اور سہارا دینے کو تیار ہوں؟ اگر یہ کردار ہم نہ نبھائیں تو حقیقی رشتے کمزور اور ٹیکنالوجی سے رشتے مضبوط ہوتے جائیں گے۔
پھر بھی امید کی کھڑکیاں بند نہیں ہوتیں۔ ایک ہمدرد دوست، ایک استاد یا ایک قریبی رشتہ دار کسی کی زندگی بدلنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ کسی انسان کا دوسرے انسان سے یہ کہنا، میں تمہیں سن رہا ہوں، تم تنہا نہیں ہو، زندگی بدلنے کی شروعات کرسکتا ہے۔

