Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Hareem e Kibriya Ke Diyar Mein (5)

Hareem e Kibriya Ke Diyar Mein (5)

حریم کبریا کے دیار میں (5)

ذہن کی رفتار بس کی رفتار سے ہزار گنا زیادہ تیز تھی، ہم پلک جھپکنے جیسے لمحے میں درِ احد پر پہنچنا چاہتے تھے، شاید اس جسمانی اور ذہنی رفتار کی کشمکش نے ہمیں اندرونی طور پر تھکا دیا تھا۔ رستے میں کہیں بھی مسجد کے مینار نظر آتے تو، بیگم یکدم پوچھنے لگتی، کیا ہم حرم شریف پہنچ گئے ہیں؟ میں ہر بار بتاتا کہ ابھی تو احرام باندھنا باقی ہے، سب بے چین اور منتظر تھے، کہ کب وہ ساعت آئے جب ہم شش جہت سے دیکھیں، وہ گھر جہاں عرب و عجم اور شرق وغرب سے پیاسے بندے اپنے آقا کے در پر آتے ہیں۔

جو حرم ہے جہاں سب بادشاہوں کا بادشاہ اپنے جاہ و جلال اور شان و شوکت کے ساتھ فضل و رحمت برسا رہا ہے، مخلوق اپنے محور کے گرد گھومتی اپنے گندے مندے کالے سیاہ کرتوتوں کو چپکے چپکے بھی اور چیخ چلا کر بھی اقرار کرتی ہے، توبہ کرتی ہے اور نومولود کی طرح پاک پَوتِر ہوتی جاتی ہے۔ معلم صاحب کی کھنکتی اور صاف لب و لہجے والی آواز سے میرے خیالات کا سلسلہ تھم گیا، وہ مسافروں کو ہدایت دینے والے انداز میں آگاہ کررہے تھے۔

حضرات و خواتین ہم میقات کے مقام پر پہنچنے والے ہیں، وہاں پہنچ کر غسل طہارت کرنا، اپنے غیر ضروری بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے کے بعد، عمرہ کی نیت کے بعد دو ان سلی سفید چادروں کا احرام باندھا جائے گا، جس کے بعد بال اکھاڑنا یا کاٹنا، ناخن چبانا یا تراشنا، خوشبو کا استعمال پیاز، لہسن کھانا، سگریٹ نوشی اور جیسے دوسرے مکروہ معاملات بالکل سختی سے منع ہیں، ان میں سے بعض احکام کو توڑنے پر قرآن کے مطابق مسجد جانے سے اجتناب یا پھر "دم" واجب ہوجاتا ہے۔

اسی طرح عورتیں اپنے اسی لباس کے اوپر سر سے لیکر پاؤں تک اپنے آپ کو یوں ڈھانپ لیں کے، فقط چہرے کی پیشانی اور ٹھوڑی نظر آئے، چھوٹے بچوں کو احرام باندھنا اور چھوٹی بچیوں کا سر کو ڈھانپنا ضروری ہے، مرد حضرات ایسا جوتا استعمال کریں جس سے پاؤں کی ایڑی اور پنجوں کے درمیان کمان کی شکل کی محراب ننگی اور واضح ہو، نیت کرلینے کے بعد اگر مکروہ اوقات نہیں، تو دو رکعت نفل نماز پڑھی جائے، اور اس کے بعد حرم شریف نظر آنے تک مسلسل اونچی آواز میں تلبیہ "الهم لبيك" پڑھا جائے گا۔

مختلف اطراف کے ہوائی سفر یا پھر بحروبر سے حرم شریف کی جانب پانچ میقات ہیں ان مقامات یا ان سے پہلے احرام کا باندھنا واجب ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے، قافلہ صحرا سے ہوتا ہوا، صاف ستھری روشوں والی وادی میں داخل ہوچکا تھا، تمام میقات میں سے، سب سے زیادہ رش اسی میقات کے مقام پر ہوتا ہے، اسے قرن المنازل، یا سیل الکبیر، میقات کہا جاتا ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے مشرق کی سمت میں 75 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ نجد، سعودی عرب کے جنوبی شہروں، طائف اور خلیجی ممالک سے آنے والے عازمین اس میقات سے احرام باندھتے ہیں۔

یہاں نزدیک ہی طائف کا علاقہ ہے جن کے پہاڑوں کو آپس میں یوں ملانے کا کہا گیا کہ اس وقت کے اہل طائف گہیوں کے ساتھ گہن کی طرح پس کر خس و خاشاک ہوجاتے، لیکن رحمت للعالمین محمدﷺ نے بدلے کی بجائے، درگزر اور عذاب کی بجائے رحمت، بخشش اور ہدایت کا رستہ چنا۔ قافلہ رک گیا تو، مرد حضرات نے اپنے اپنے سامان سے احرام کی چادریں اور عورتوں نے برقعے وغیرہ نکال لئے، دیکھنے میں یہ ایک خوبصورت اور نہایت پرہجوم جگہ تھی۔

مختصر سے بازار کی صورت میں وہاں ضرورت کی ہرچیز میسر تھی، غسل خانوں کے لیے وسیع رقبہ مختص تھا، جس کے ساتھ نہایت وسیع و عریض اور کشادہ مسجد تھی، عورتوں اور مردوں کیلئے وہاں بھی الگ الگ جگہیں تھیں، غسل خانوں اور احرام باندھنے والی جگہوں پر بے تحاشا رش تھا، غسل خانوں کے باہر قطار کی صورت صبر سے انتظار کرنے کا مرحلہ سر کیا، غسل وغیرہ سے فراغت کے بعد احرام باندھ لیا، احرام جب نیت کرکے ایک بار باندھ لیا جائے تو پھر عمرہ کی ادائیگی کے بعد، سر کے بال ترشوا کر ہی کھولا جاتا ہے۔

اس سے پہلے بغیر عذر کے کھولنے پر ممانعت ہے، نیت کرنے کے بعد مسجد کے اندر جاکر نوافل ادا کیے، اور کچھ کھانے پینے کے خیال سے ڈھابہ نما کیفی ٹیریا کی جانب رخ کیا، چائے اور برگر نما سینڈوچ کھانے کے بعد دیکھا کہ، ہماری بس کے معلم صاحب، اپنی بس کے مسافروں کو ڈھونڈ رہے تھے، خیر سے ایک بار پھر بس میں سوار ہوگئے، لیکن اس بار ہم سب تازہ دم اور پرجوش تھے، بس میں سوار ہونے کے بعد، تمام مسافر معلم کے پیچھے پیچھے یک زبان ہو کر تلبیہ کے کلمات دہرانے لگ گئے۔

سچ پوچھیں تو ایک عجیب سی کیفیت اور اضطراب تھا، اپنا وجود اپنے قابو میں نہیں رہا تھا، کوئی مقناطیس کی طرح کھینچ کر بے بس کرتا جارہا تھا، اپنے گناہوں کی ایک فلم آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی، یاد گناہ سے ندامت اتنی تھی کہ خیالوں میں بھی منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ کہاں میں سیاہ کار اور کہاں میرا مالک؟ میرا خالق مجھے اپنا مہمان بنا رہا تھا، گریہ ندامت کے ساتھ خوف کی کپکپی طاری تھی، اپنے گناہ اور ربّ ذوالجلال کے سامنے حاضری کے سوا کسی چیز کا اندیشہ یا سوچ باقی نہیں تھی۔

شریک حیات یا جگر گوشہ ذہن سے محو ہوگئے تھے، سوچوں اور خیالوں میں نفسانفسی کا عالم بپا تھا، بس کے اندر، اردنیوں کی جانب سے یکایک نعرہ تکبیر کی صدا گونجی، جس نے میرے اندر برپا محشر کو منتشر کردیا، کیا دیکھتا ہوں کہ قافلہ گرم تپتے صحراؤں سے نکل کر بلند و بالا فلک بوس عمارتوں اور کھجور کے درختوں سے مزین شاہراہوں کی جانب نکل آیا تھا، " حرم مکی کی حدود تھی، برے بڑے بورڈز پر" فقط للمسلمين" لکھا ہوا نمایاں تھا، یہاں موسم سے زیادہ زندگی گرم اور رواں دواں تھی۔

تقریباً سارا علاقہ رہائشی ہوٹلوں اور ریستورانوں پر مشتمل تھا، بس پکی سڑکوں پر بل کھاتی اور فراٹے بھرتی ہوئی، ہماری رہائش والے مطلوبہ ہوٹل کے سامنے پہنچ کر رک گئی، سامان اتارنے اور کمرے کی چابی دینے کے بعد، معلم نے بتایا کہ ہم ٹھیک اتنے دن بعد فلاں وقت، ان شاءاللہ یہاں دوبارہ اکٹھے ہوکر، قافلے کی صورت مدینہ طیبہ کی جانب روانہ ہوں گے، لفٹ میں سوار ہوکر اپنے مطلوبہ کمرے میں پہنچے، جو سترویں منزل پر تھا۔

کمرہ کھولنے کے بعد دیکھ کر اطمینان ہوا کہ، کمرہ مطلوبہ معیار اور ضرورت کے مطابق بہترین تھا، جلدی جلدی سامان نکالا، بیگم صاحبہ کو جلد از جلد تیار ہوکر روانگی کا کہا، کیونکہ اس دن جمعہ تھا، رمضان کی آمد آمد اور عمرہ کے آخری ایام ہونے کی وجہ سے بے پناہ رش تھا، ہوٹل سے حرم تک کے رستے مجھے یاد تھے، اس لیے دل میں خواہش تھی، کہ جمعۃ المبارک کی نماز سے پہلے پہلے عمرہ کی ادائیگی کرلی جائے۔

Check Also

Aalmi Siasat 2024, Tanz o Mazah Ko Roshni Mein

By Muhammad Salahuddin