Hareem e Kibriya Ke Diyar Mein (4)
حریم کبریا کے دیار میں (4)
ہم اب اس سرزمین پر ہیں، جو سیدنا ابراہیمؑ کی دعاؤں کا ثمر، اور جسے بعد از خدا بزرگ و برتر نے حجاز مقدس کہا تھا، جہاں اب لمحہ بہ لمحہ دل، جسم اور روح اپنے محور و مرکز کی جانب بے اختیار کھنچے چلے جارہے تھے، اس بات کے احساس سے ایک عجیب سی سرشاری اور کیف کی کیفیت نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ دل کسی بھنور کی مانند عجب رقصاں تھا، لگتا تھا ابھی کہ ابھی پسلیوں کا پنجرہ توڑ کر کسی صحرائی بگولے کی مانند فلک کو چھونا چاہتا ہے۔
حضرات و خواتین دل کی سرزمین گناہوں کی سیاہی سے اس طرح آلودہ تھی جیسے صدیوں سے بند کنوؤں میں پانی کی جگہ بدبودار سیاہ کائی اور چمگادڑوں کا بسیرا ہو، لیکن حجاز مقدس کی فضاؤں نے جیسے ہی اپنے حصار میں جکڑا تو عرصہ دراز سے غفلت میں پڑے دلِ اسود کے نہاں خانوں سے اب لبیک یا رب لبیک لا شریک رب کی ندا پھوٹنے لگی، پورا وجود شدت سے کملی والے محمد رسول اللہﷺ کے حجرہ مبارک کے در و دیوار سے لپٹ کر دردو سلام کے گلدستے بھیجنے اور گنبدِ خضراء کی تجلیوں اور برکات کو پُور پُور میں سمونے کو بیتاب تھا۔
بس سے باہر مکمل تاریکی چھا چکی تھی، اِکا دُکا گاڑیوں کی تیز روشنیاں اندھیری چادر میں شگاف ڈالتی تو تھوڑی دیر کے لیے احساس ہوتا کہ ہم محو سفر ہیں، بس میں خنکی بڑھنے اور سفر کے اثرات سے سب پر نیند کا غلبہ تھا، ڈرائیور تھک گیا تو اس کی جگہ ایک تازہ دم ڈرائیور نے نشست سنبھال لی، اور تھکا ہوا ڈرائیور اپنے کیبن میں سونے کیلئے چل دیا۔ میں بھی سونے کی کوشش کرتا رہا، لیکن نیند ہمیشہ کی طرح کہیں آس پاس بھٹکتی رہی اور قریب آنے سے کتراتی رہی۔
ذہن گرد و پیش کے ماحول کی گرفت سے نکلا تو، تمام جاننے والے اور ملنے والوں کی دعائیں اور پیغامات ذہن و دل کے نہاں خانوں میں گردش کرنے لگے، جس طرح اہل فلسطين بیت المقدس میں نماز پڑھنے اور اس کو اپنی تحویل میں رکھنے کیلئے بیتاب رہتے ہیں، ویسے ہی میرا وجود مقدس حرمین شریفین کی زیارت و عبادت کیلئے بےحد مشتاق اور بیقرار تھا، جی چاہتا تھا کہ یہ قافلہ اچانک ایک جھٹکے سے رکے، فلک شگاف تکبیروں کی صداؤں کے اندر سے ایک پکار سنائی دے۔
"آجاؤ میرے ربّ کےبندو، اے دو گھروں کے مہمان بندو، دنیا میں اپنی مثال آپ ایسے یکتا دو گھر، جن کے مہمان تمھارے دو گھروں کے مہمانوں کی طرح بھوکے نہیں رہتے، یہاں کا میزبان خود پروردگار ہے، جو بزرگ و برتر اور ہر عیب سے پاک ہے، اس کی نہ مثال ہے اور نہ کوئی شریک ہے، تن تنہا پوری کائنات کے نظام کو بغیر نقص کے چلانے والا، ہے کوئی ایسا میزبان؟ تو بے شک اس کی بندگی میں چلے جاؤ، مگر احد کا ثانی کوئی نہیں۔
ازل سے قائم سلطنتوں نے نظاموں کو درہم برہم کرنے والے حکمران تو بہت دیکھے مگر نظام کو بے عیب چلانے والا بادشاہ فقط قہار و جبار وحدہ لا شریک اور اس کا نائب کالی کملی والا ہے، جو منصفانہ اور شفاف تقسیم کرنے والے ہیں انہی سوچوں میں نجانے کب نیند مہربان ہوئی اور کب دنیا مافیہا سے بے خبر ہوا پتا ہی نہیں چلا۔ خمارِ نیند میں یوں محسوس ہوا جیسے ننھے منے ہاتھوں سے کوئی اپنی جانب کھینچ رہا ہے، معصوم لیکن نامانوس سی پکار سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی۔
شعور اور لاشعور کے جھگڑے میں نیم وا آنکھوں سے دیکھا تو ایک چھوٹا بچہ، ہاتھوں میں چاکلیٹ اور ٹافیوں والا ڈبہ پکڑے اپنی توتلی زبان سے کہہ رہا تھا "انکل اس ڈبہ سے کچھ لے لیں "، پیار اور تشکر کے احساس کے ساتھ چاکلیٹ اٹھائی اور بچے کو تھپکی دی وہ خوشی خوشی یہی عمل دہراتا دوسروں کی جانب چل دیا، زائرین میں شامل بھارتی خاندان کا سربراہ اس بچے کو اپنی پیاری چیز کی قربانی دینے اور دوسروں کی مدد کرنے کی عملی تربیت دے رہا تھا، یقیناً یہ فعل متاثر کن تھا۔
نیند سے پوری طرح بیدار ہونے کے بعد، بس کے اندر ایک طائرانہ نگاہ سے جائزہ لیا تو اکثریت تقریباً جاگنے والوں کی تھی، پردے کو کھینچا تو باہر روشنی اندھیرے سے گتھم گتھا تھی، مقامی وقت کے مطابق رات بس کچھ دیر کی مہمان تھی، شاہراہ پر مسافر وں کیلئے بنائے گئے قیام اور طعام گاہوں کی جلتی بجھتی رنگ برنگی روشنیاں صحرا میں تھکے ہوئے قافلوں کو اپنی جانب آنے کیلئے پکار رہی تھیں، بحرینی فیملی میں ایک عمر رسیدہ بزرگ تھے، جس کے چہرے اور مزاج میں طویل تھکا دینے والے سفر کے اثرات دکھائی دے رہے تھے۔
وہ جھنجلاہٹ کے ساتھ بار بار ڈرائیور سے رکنے کو کہہ رہا تھا، تاکہ کچھ دیر چہل قدمی کرسکے، اور کھلی فضا میں چند سانسیں لے سکے، لیکن ڈرائیور صرف مسکرا کر ٹال رہا تھا، آہستہ آہستہ اکثریت بابا جی کی ہمنوا بن گئی تھی، لیکن ڈرائیور کہنے لگا، میں اپنے تعین کردہ وقت اور مقام کے مطابق بس روکوں گا، میرے خیال میں وہ حق بجانب تھا، کیونکہ صحراؤں میں رات اور دن کے اثرات آبادیوں کی نسبت جلدی ظاہر ہونے لگتے ہیں، مقامی وقت کے مطابق نماز فجر میں نصف گھنٹہ باقی تھا۔
اس کے بعد ریتلے پہاڑوں کی اوٹ سے سورج سرعت سے اپنی آب و تاب دکھانے لگ جائے گا، تو موسم میں حدت بڑھنے لگے گی، اس لیے دو بار وقفہ کرنے کی بجائے، اک بار ہی اگلا پڑاؤ، آذان کی آواز کے ساتھ کیا جائے، ہلکی پھلکی بھوک محسوس ہونے لگی تھی، سڑک کے دونوں اطراف کچھ کچھ فاصلے پر اونٹو ں اور بکریوں کے باڑے متواتر دکھائی دے رہے تھے، اگر آپ اپنی گاڑی پر سفر کریں تو ان باڑوں سے تازہ دودھ اور لسی ہر وقت مل سکتی ہے۔
یہاں اونٹ سفید اور بھورے رنگ کے تھے، جس شاہراہ پر ہم سفر کر رہے تھے، اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر علاقہ پہاڑیوں اور ریتلے میدانوں پر مشتمل تھا، پہاڑ کالے سیاہ جن کے اوپر بڑے بڑے دیو قامت پتھر تھے، پانی، گھاس، سبزہ یا درختوں کا نام و نشان نہیں تھا، سعودی عرب کا بڑا شہر "ریاض" ہم رات کو ہی کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے، میرے سمیت کسی کے پاس بھی اتنی معلومات نہیں کہ ہم جن جگہوں سے گزرتے جارہے ہیں ان کے قریب ترین کونسے مشہور علاقے یا تاریخی اور مذہبی مقامات ہیں؟
نماز فجر کی ادائیگی، ناشتہ کرنے اور ٹانگوں کو اپنی قدرت حالت میں لانے کیلئے بس بالآخر رک گئی تھی۔ رستے میں جہاں کہیں بھی پڑاؤ کیا تو ایک چیز دیکھی کہ، مسافروں کے قیام و طعام والی جگہوں پر مسجدوں میں باقاعدہ طور پر امامت کے فرائض انجام دینے والے لوگ نہیں تھے، اور ہر مسجد کے ساتھ باقاعدہ عورتوں کی مسجد تھی۔ اس سے یاد آیا کہ بحرین میں بھی عورتوں کے لیے، باجماعت پنجگانہ نمازوں اور جمعہ کی نماز کیلئے تمام مساجد میں الگ حصے مخصوص ہیں۔
جس جگہ پڑاؤ تھا، یہ شاید بسوں کا بڑا جنکشن تھا، یہاں پر مختلف خلیجی اور دیگر عرب ممالک کی بسیں اور مختلف حلیوں والے لوگ تھے، جن کی منزل در کعبہ تھی۔ مسجد کے اندر جماعت کی امامت کروانے والے صاحب کا لہجہ خوبصورت اور قرأت نہایت ہی اثر انگیز تھی، سچ میں بڑے عرصے بعد ایسی دلنشیں آواز سماعتوں میں رس گھول رہی تھی، کہ دل چاہ رہا تھا، یہ دو رکعتوں کا وقت طویل ہوجائے، اور قیام میں کھڑے قرآن سنتے جائیں۔
نماز کی ادائیگی کے بعد ہلکا پھلکا ناشتہ کیا، معلم صاحب سے بقیہ فاصلے اور وقت کا پوچھا تو کہنے لگے، کچھ دیر بعد اگلا بڑا پڑاؤ ہے، جہاں عمرہ کی باقاعدہ نیت کرنے کے بعد احرام باندھا جاۓ گا، سارے مسافر بس میں سوار ہو چکے تو، بس منزل کی جانب روانہ ہونے کے لیے تیار تھی۔