Hareem e Kibriya Ke Diyar Mein (3)
حریم کبریا کے دیار میں (3)
کہاں ہم اور کہاں پہ نکہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی
عبد و معبود کے دَروں کا پروانہ حضوری ملنے کا لمحہ، زائرین میں موجود ہر شخص کے لیے لمحہ تشکر تھا۔ جس کے لیے فوراً سجدہ شکر ادا کیا گیا۔ ایک دوسرے کو مبارکباد اور سفر بخیر کی دعائیں دینے کے بعد، اپنے سفری سامان کو دوبارہ ترتیب دیتے ہوئے سارے مسافر بس میں بیٹھ چکے تھے۔ رستے میں چھوٹے چھوٹے پڑاؤ کرتے، سستاتے ہوئے بڑا اور آخری پڑاؤ، ہماری منزل اور مہمان نوازی، رب کے ہاں مکہ مکرمہ میں تھی۔
اب بس دوبارہ سے سوڈانی ناخداؤں اور ہندی معلم کے ملے جلے تعاون سے جانب منزل محو سفر تھی۔ بس کے اندر ریفریجریٹر، موبائل، فون چارجنگ، فوڈ اینڈ بیورج ٹرے، ٹھنڈا یخ اے سی، آرام دہ کشادہ نشستیں، سروں کے اوپر دستی سامان رکھنے کی جگہ، بس کے نچلے حصے میں ٹوائلٹ کی سہولیات، سیڑھیوں کے نیچے ڈرائیور حضرات کی آرام گاہ اور مختصر سا باورچی خانہ بھی تھا۔ ٹھنڈے ٹھار جوس، یخ پانی اور اے سی کی بدولت جنگل میں منگل کا سماں تھا۔
سمندر اور پل کے ختم ہوتے ہی حجاز مقدس کے ریتلے، کالے اور بھورے صحرا میں پھرتے بگولے یوں دکھائی دے رہے تھے، جیسے کوئی اژدھا زبان نکالے تیزی سے اڑان بھرتا ہوا آتا ہے، اور بس کے ساتھ لپٹتے ہی دھول مٹی اور دھواں ہوجاتا ہے۔ پانچ بسوں کا قافلہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہی سفر میں تھا۔ ہر بس میں عمرہ سروس کی جانب سے ایک گائیڈ متعین تھا جسے معلم کہا جاتا تھا۔ ہماری بس کا معلم بتا رہا تھا، کہ اب یہاں ہم تمام نمازیں قصر ادا کریں گے، اور کہیں دو ملا کر اکٹھی بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔
جس کا فیصلہ، وقت، قیام گاہ، موسم اور مسجدوں کے فاصلوں کے مطابق کیا جائے گا۔ میری ننھی پری اور اس کی دل کو موہ لینے والی قلقاریوں نے بس کا ماحول خوشگوار بنا رکھا تھا۔ پچاس زائرین کرام میں اکیلی معصوم ننھی پری تمام زائرین کا ایسا دل بن گئی تھی جو جسم سے باہر نکل کر کبھی ادھر کبھی ادھر لڑھک اور دھڑک رہا تھا۔ ہر کوئی التجائی نظروں اور محبت سے اٹھانے کیلئے آگے بڑھ آتا، اور میں چاہتے ہوئے بھی انکار کی سکت نہیں رکھتا۔
زائرین، پاکستانی، ہندوستانی، بنگالی، اردنی، مصری، یمنی، بحرینی اور ایک برطانوی فیملی پر مشتمل تھے۔ اتنے سارے ملکوں کے لوگ مختلف بولیاں اور مختلف ٹولیاں ایک عجیب سا خوشگوار منظر تھا۔ ہر کوئی اپنے وطن کے ذائقے اور خوشبو میں لپٹے پکوان اور سوغات لےکر آیا ہوا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ مختلف کھانے پینے کی اشیاء کا تبادلہ اور فیس بک کی آئی ڈی یوں مانگی جارہی تھی، جیسے گرمیوں کی دوپہر میں تنور کی گرم روٹی کے ساتھ گھر کے آموں کا اچار۔
دمام شہر کو عبور کرنے کے بعد، ہر نشست سے جڑے اسپیکروں سے معلم کی میٹھی ہندوستانی لہجے میں گھلی اردو میں آواز نشر ہونے لگی۔ جو چار زبانوں میں بڑی مہارت سے باری باری اپنی بات دہرا رہا تھا۔ معزز مسافرين ہمارے پہلے پڑاؤ اور کھانے کا وقت ہوگیا ہے۔ سب کی توجہ معلم کی جانب ہوگئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے بس ایک خوبصورت پٹرول اسٹیشن پر رک گئی۔ وہاں ہوٹل، سپر مارکیٹ، چائے و قہوہ خانہ اور خوبصورت مسجد تھی۔ سب کو تاکید کی جارہی تھی کہ کم سے کم وقت خرچ کیا جائے اور اپنی بس کا نمبر نوٹ کرلیں تاکہ پریشانی سے بچ سکیں۔
شام کے سائے سورج کی گرفت سے دھیرے دھیرے سرک رہے تھے۔ رات دور کھڑی سیاہ قبا کو چاک کرنے کی منتظر تھی۔ مگر موسم میں حبس کو دیکھ کر یونہی لگ رہا تھا، کہ سورج میاں اپنی حدت سے دستبردار ہونے کے موڈ میں نہیں تھے۔ کہیں دل ہی دل میں بارش کی خواہش اور دعا ہے۔ لیکن یار لوگ کہتے ہیں صحرا میں معجزات بہت کم ہوتے ہیں۔ ہمیں ننھی منی شیر خوار بچی کو سنبھالنا اور دیئے گئے مختصر وقت میں اپنے کاموں کو سرانجام دینا ایک کٹھن مہم کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔
بس سے باہر کا گرم موسم بیٹی کو کافی حد تک پریشان کرنے لگا۔ اس کی شوخیاں اور قلقاریاں گرم لو کے تھپیڑوں سے ماند پڑنے لگیں۔ بیٹی کے کپڑے، ڈائپرز وغیرہ تبدیل کرنا، پھر باری باری ٹوائلٹ کا رخ کرنا، ایک ایک کر کے نماز ادا کرنا، نیا اور مشکل تجربہ تھا۔ ہم دونوں اپنے جگر گوشے کو سنبھالنے، قلیل مدت میں زیادہ کام کرنے اور وقت بچانے کی بھرپور جدوجہد کررہے تھے۔ باقی مسافر کھانے سے فراغت کے بعد قہوہ وغیرہ نوش فرما رہے تھے، اور ہم ابھی سوچ رہے تھے کہ کیا کھایا جائے؟
ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں تاکہ اپنے ذوق اور بھوک کے مطابق کچھ کھایا جائے۔ ایک جانب معلم صاحب کھڑے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے نگاہوں کے ملاپ پر چہرے پر مسکراہٹ سجائی، اور وہ چل کر میرے پاس آگئے۔ گپ شپ کے موڈ میں تھے۔ سلام دعا کے بعد بتانے لگے کہ عمرہ زائرین کے ساتھ آتے ہوئے مجھے بہت عرصہ ہوگیا ہے۔ اب میں زائرین کرام کی مجبوریوں، ضروریات اور نفسیات سے بخوبی واقف ہوچکا ہوں۔ آپ یقیناً باقیوں سے تھوڑا لیٹ ہونگے، اور ہر بار بس میں روانگی کیلئے آپ کا انتظار بھی کیا جائے گا۔
میری پوری کوشش ہوگی بس کا عملہ اور مسافر آپ سے تعاون کریں۔ کیونکہ آپ اکیلی فیملی ہیں جس کے ساتھ شیر خوار بچی ہے۔ میں نے دل سے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے مزید راہنمائی کردی کہ فلاں جگہ سے بچوں کی اشیائے ضرورت اور فلاں جگہ سے بہترین کھانا ملے گا۔ حضرات و خواتین میں جدھر بھی نگاہ کررہا ہوں، یوں محسوس ہورہا ہے جیسے پاکستان میں جی ٹی روڈ پر لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے بس کسی پٹرول پمپ اور ہوٹل پر رکی ہے یا پھر ٹرین روہڑی ریلوے اسٹیشن پر آکر رک گئی ہے۔
سارا سماں ہوبہو ویسا ہی ہے حتیٰ کہ کھانے پینے کی اشیاء کے نرخوں میں مسافروں کیلئے اضافہ بھی اسی مناسبت سے ہے۔ مسافر کیسا بھی غریب الوطن ہو، دنیا کے کسی کونے میں بھی ہو وہاں کے مقامی لوگوں کیلئے وہ ایک امیر گاہک تصور کیا جاتا ہے۔ جس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی خاص رعایت نہیں برتی جاتی۔ خیر ہم نے بھنی ہوئی مرغی اور چاول کھائے جس کو مقامی زبان عربی میں "مَندي دجاج" کا نام دیا جاتا ہے۔ ہر کھانے کے ساتھ پیاز، لیموں اور سبز سلاد یہاں ایک لازم جزو سمجھا جاتا ہے۔
تقریباً طعام گاہوں کے انتظام و انصرام میں اور مختلف چیزوں کی فروخت کے اسٹالز پر، یمنی اور صومالی لوگوں کی اجارہ داری دیکھنے میں آئی۔ جنگ کی وجہ سے اب جگہ جگہ یمنی خواتین اور بچے بھیک مانگتے دکھائی دے رہے تھے، جو ہمارے ہاں پاکستانی طریقوں کے مطابق زبردستی خیرات لینے کے چکر میں تھے۔ ایک بچے کو چند ریال نکال کر دے تو دیئے لیکن فوراً احساس ہوا کہ شاید غلطی ہوگئی ہے۔ کیونکہ آناً فاناً کافی سارے بچوں نے گھیر لیا اور سب اپنا اپنا حصہ زور و شور سے مانگنے لگے۔
سعودی عرب میں بھیک مانگنا قانوناً جرم ہے۔ اس لیے بھیک مانگنے پر سختی سے پابندی کے باوجود بھیک مانگتے ہوئے بچوں کی اتنی زیادہ تعداد دیکھ کر دل بجھ سا گیا تھا۔ جو مقدس سرزمین سخیوں کے سخی اور بانٹنے والوں کے سردار سے منسوب ہے۔ وہاں لوگ رب کعبہ اور امیر عربﷺکے در کو چھوڑ کر لوگوں سے امید لگا لیں تو یقیناً معاشرے میں ناانصافی کا رواج ہوگا جس نے لوگوں کے ایمانوں کو کمزور کیا ہوگا۔
خیر حسب توفیق کچھ دے دلا کر وہاں سے نکلے، تو اس کے بعد بسکٹ، جوس، دودھ اور چاکلیٹس وغیرہ خرید کر بس کی جانب منہ کیا۔ وہاں سب مسافر ہمارے انتظار میں تھے۔ لیکن کسی کے چہرے پر بھی غصہ یا جھنجلاہٹ کے آثار تک نہیں تھے، کیونکہ سب ہماری مجبوری کو جان چکے تھے۔ سب نشستیں پُر ہوچکی تو احتیاطاً معلم صاحب کی جانب سے سب کی حاضری لگنے کے بعد، بس کے دروازے بند ہوگئے۔ دعائے سفر پڑھی گئی اور مختصر سے وقفے کے بعد ایک بار پھر منہ ول کعبہ شریف تھا۔