Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Hareem e Kibriya Ke Diyar Mein (1)

Hareem e Kibriya Ke Diyar Mein (1)

حریم کبریا کے دیار میں ( 1)

دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کر

حریمِ کبریا سے آشنا کر

جب گاؤں کی اُجلی فضا میں کچے گھروں کے اندر پختہ رشتے ہوتے تھے، اس وقت چند شبد میری سرزمینِ دل میں کسی ثمر آور بیج کی صورت بو دیے گئے تھے۔ بچپن میں ہی کہیں ماں جی نے نماز پڑھنے کی نیت یاد کروائی تھی (پتر پاک صاف ہوکے پنج وقتی رب دے حضور کھلو کے نماز دا ویلا تے اودیاں رکعاتاں دا ناں لیکے "منہ ول کعبہ شریف" لازم آکھنا اے)، وقت پنکھ لگا کر اڑتا گیا، اس دوران جب بھی رب نے اپنے سامنے سجدہ ریز ہونے کی توفیق دی تو یہ سطر منہ ول کعبہ شریف یاد رہتی تھی، باقی نیت کے الفاظ گڈمڈ کرجاتا تھا، کبھی کبھی ننھے ذہن میں تجسس ابھرتا بھی تو ہمت نہ ہوتی کے ماں جی سے پوچھ ہی لوں یہ کعبہ شریف کیا ہے، اور کہاں ہے، اور کیوں منہ ول کعبہ شریف ہے۔

آہستہ آہستہ عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ نیت میں بھی پختگی آتی گئی۔ لیکن کعبہ کا کوئی جاندار تصور ذہن میں نہ ابھر سکا۔ بچپنا گزرا تو لڑکپن اور عہد شباب میں جب ذرائع ابلاغ کے ذریعے کسی حد تک کعبہ کا تصور بن گیا، تو پھر اس ایک سطر کو دہراتے ہوئے عجیب کیفیت ہوتی تھی۔ دادا جی سَچے اور سُچے پرانے وقتوں میں حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد جب لوٹے تو اپنے ساتھ سربمہر ایک گول مٹول سا جستی ڈبہ بھی لے کر آئے تھے۔

جس کے اوپر ایک ننھا سا ڈھکن تھا، جہاں سے چند قطرے پیالے میں انڈیل کر ساتھ کنویں کا پانی ملا کر پینے کو دیا جاتا تھا، اور تاکید کی جاتی تھی کہ یہ آبِ زم زم ہے اسے کھڑے ہوکر پینا، اور زمین پر گرنے نہ دینا، یہ اس کا ادب ہے۔ سوچتا تھا کہ جہاں سے آئے ہوئے پانی کو اتنی تقدیس حاصل ہے کہ پینے کے وقت بھی ادب ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، تو پھر اس مٹی کا مقام کیا ہوگا جہاں سے یہ آب زلال نکلتا ہے۔

غم روزگار کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے خانہ بدوشوں کی مانند نگر نگر پھرنے لگا، منہ ول کعبہ شریف کا سرور بھی تھا اور حاضری کی کسک بھی تھی کہ، نجانے کب حاضری ہو کب بلاوہ آئے، دنیا کی خاک چھانتا ہوا صحرا نورد ایک دفعہ اس محکمے کا حصہ بن گیا تھا، جو لوگوں کو حج، عمرہ، پر بھیجنے، ٹکٹ بنانے اور جہازوں میں بٹھانے کا کام کرتے تھے، لوگوں کو اپنے ہاتھوں پروانہ دےکر روانہ کرتے ہوئے بھی، نیت دید خواہش سے آگے نہ بڑھ سکی اور کورے کا کورا ہی رہا۔

شاید خام کو پختہ ہونے میں دیر تھی، دیر کتنی تھی علم نہیں تھا۔ غم روزگار میں الجھا رہا، دل تو جانبِ کعبہ رہا مگر سائل اور وسائل کسی ایک نقطے پر مل نہ سکے، حاجیوں اور عمرہ ذائرین کو ملتا تو کہتا میری حاضری کا کہنا لیکن یہ حاضری کیسے ہوتی ہے، حضرات و خواتین یہ نہ آپ جانتے ہیں اور نہ میں علم رکھتا ہوں یہ بلانے والےکا کرم اور بانٹنے والے کی رحمت ہے۔

اس سفر میں تڑپ، چاہت، شوق، انتظار، روپیہ پیسہ، وسائل سب کچھ بے معنی ہیں، آسمانوں سے نازل ہونے والی فہرست کی ترتیب انوکھی اور بام عقل سے کوسوں دور کی ہوتی ہے۔ وہاں پہنچنے والوں کے اور رب کے درمیان کیا معاملہ ہے، یہ کوئی نہیں جانتا، قافلے سے پیچھے رہ جانے والے قافلے کا حصہ کیوں نہیں بنتے، اس میں بھی رب کی کوئی پوشیدہ حکمت ہوتی ہے جو قرطاس فہم پر نہیں اترتی۔

میرے ذاتی خیال میں حاضر ہونے والے ضروری نہیں کہ ولی یا کبریا کے مقرب بندے ہی ہوں، اور پیچھے رہ جانے والے گنہگار یا رحمت سے محروم ہوں، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ درِ احد پر جانے والے آزمائش کی بھٹی میں ڈالے جاتے ہیں، شاید آسمانوں سے ندا آتی ہوگی کہ اے میلے کچیلے بندے، اس سے پہلے کہ روح کی طنابیں کھینچ لی جائیں، تجھے صاف ستھرا ہونے کا ایک موقع اور دیا جاتا ہے۔

اب تو سدھر کر ہی لوٹنا، وہاں سے لوٹ کر آنے کے بعد والی زندگی علم الیقین والی زندگی ہوتی ہے، اور دلِ بینا کی زندگی تو زیادہ احتیاط والی ہوتی ہے۔ جیسے بیعت کے بعد مرید کی زندگی پیر کی طریقت پر ہوتی ہے، ویسے ہی حرم شریف میں حاضری ظاہری بیعت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے، اور پھر بینا اور نابینا کے قدموں کا طریقِ شریعت سے ڈگمگانے کے بعد مواخذے میں فرق تو آجاتا ہے۔ پھر پتا نہیں کیسے موسمِ دید آن پہنچا، نیت، شوق، جذبے، خواب و خیال کو تعبیر کا پیرہن عطا ہوا۔

جب مرکزِ ابتدا و انتہا کی کشش نے اپنی جانب کھینچا، تو اس وقت نہ ہی معقول زادِ راہ میسر تھا، اور نہ ہی سفر کی کوئی سبیل تھی، کٹھن زندگی کا بوجھ ڈھوتے ہوئے، گھریلو ذمہ داریوں کے طوق سے گردن کہیں اور جھکی ہوئی تھی، اور دل کہیں اور اٹکا ہوا تھا، لیکن جب بلاوہ آگیا تو سب کچھ کیسے طے پاتا ہے وہ کارساز ہی جانتا ہے۔ اپنی ماں جی اور ابا جی کے ساتھ صحنِ حرم میں کھڑا تھا کہ یکلخت آنکھ اور دل کے درمیان سے نقاب ہٹا اور کیا دیکھتا ہوں، جس رخ سے بھی دیدار کروں شش جہات سے منہ ول کعبہ شریف تھا۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari