Hamari Azad Uran
ہماری آزاد اڑان
صحرا میں ہر سو پھیلی تاروں بھری مدھر رات کے بعد سمندر کنارے ٹھہری ہوئی شام سے مجھے لامتناہی قسم کا عشق ہے۔ بسا اوقات میں جب اپنے مصروف جیون سے کوئی ایک آدھ شام چرا کر خود کو بھٹکنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتا ہوں تو بے اختیار ہو کر یہاں آ نکلتا ہوں۔ یہاں فطرت کی فیاضی اپنے جوبن پر ہے۔ شاید اسی لیے یہ میری پسندیدہ ترین جگہ ہے۔ یہاں میری بوسیدہ روح کی تروتازگی کا سارا سامان ایک خاص ترتیب سے بکھرا پڑا ہے۔ سوندھی خشبو والی مٹی جس کی مہک روح تک رسائی رکھتی ہے۔
کسی معصوم بچے کی مانند پاؤں سے لپٹنے کو بے تاب چمکیلی ریت، کسی بزرگ داستان گو کی مانند زمانہ شناس بھورے پتھر، میری محبوب کہانیوں کی مانند بکھری ان گنت رنگ برنگی سیپیاں اور گھونگھے، درویشانہ رقص کرتی ہوئی شوخ و چنچل لہریں، زَبَرْجَد رنگ والے سمندر کے نم بوسوں کو اپنے پلو کے کونے میں باندھ کر شرم سے دوہری ہوتی ہوئی باد نسیم کے یخ بستہ جھونکے، خوشی کے گیت گاتی سفید پروں اور پیلی چونچوں والی مہاجر کونجیں، سرمئی پروں اور کتھئی رنگ کی گردنوں والے درویش کبوتروں کے غول، نیلا امبر جس کے نیچے تیرتے بے نیاز بادلوں کی سفید ٹکڑیاں۔ اور بہت کچھ ایسا جسے بیان کرنے کا نہ سلیقہ ہے نہ ہنر۔
میں یہاں پہروں خاموش بیٹھ کر کائناتی ساز کے ردھم کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سمندر، ہوا اور پرندوں کی بولیاں سمجھنے لگ گیا ہوں۔ ان کی گفتگو کا کوئی ایک آدھ شبد جب مجھ پر کھلتا ہے تو میں سوچتا ہوں کیا میں اس کائناتی زبان کو سیکھ رہا ہوں یا پھر یہ مظاہر فطرت مجھے اکسانے کی خاطر ایک آدھ فقرہ میری زبان میں میری سماعتوں کی جانب اچھال دیتے ہیں۔
جیسا کہ آج میں اسی گوشہ عافیت میں بھورے پتھروں سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا تو میں نے دو پرندوں کو پانی پر اٹھکھیلیاں کرتے دیکھا، وہ میرے سامنے پانی کی سطح پر اکٹھے ہوتے، گلے ملتے، رقص کرتے، قلقاریاں بھرتے کسی معصوم بچے کی مانند ارد گرد سے بے نیاز ہو کر نغمہ سرا ہوتے اور پھر ایک پرندہ مشرق کی جانب اور ایک مغرب کی جانب اڑ جاتا، مختصر سی اڑان بھر کر دونوں دو مختلف سمتوں سے اڑتے ہوئے آتے ایک دوسرے سے ٹکراتے، پانی میں گرتے، اور گرتے ہوئے غوطہ زن ہوتے ہوئے شفاف پانیوں کی تہہ تک اترتے چلے جاتے، میں پانی پر نظریں جمائے ان کے ابھرنے کا انتظار کرتا، وہ پانی کو چیر کر ابھرتے، گلے ملتے رقص کرتے اور نغمہ گاتے، بچھڑتے اور پھر محو پرواز ہو جاتے۔
ایک بار یوں لگا جیسے میں ان کی بولی کے چند لفظ سمجھنے لگا ہوں، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ فکر دنیا سے منقطع ہو کر ہماری آزاد اڑان سے محضوض ہوتے بے بس انسان کو تو دیکھو ذرا، اس نے زمین و آسمان کو تسخیر کر لیا، اپنی سہولت کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک چیز تک ہر چیز ایجاد کر لی، مگر پھر بھی آزاد گگن و شال کے نیچے اپنے لیے خوشی کو تخلیق نہ کر سکا، آزادی کو ایجاد نہ کر سکا۔