Emandari
ایمانداری
گذشتہ جمعہ کو دیارِ غیر میں بسنے والے گرائیوں کی بیٹھک تھی، وہاں بزرگوں اور دوستوں کے ساتھ طویل اور یادگار نشست رہی، گاؤں میں بیتے ہوئے وقت اور گزرے ہوئے لوگوں کو یاد کیا گیا، اسی ناسٹیلجیا محفل میں بات جب وطن کی صورتحال کے متعلق چل نکلی تو بزرگوں نے کہا کہ بھائیو ڈاؤن فال کی بہت ساری وجوہات ہیں، مگر سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ، کسی بھی جگہ، کسی کے بھی ساتھ جب بے ایمانی کا چلن عام ہو جائے اور جس معاشرے میں ایمانداری کا فقدان ہو جائے تو وہ سماج سب سے پہلے اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوتا ہے اور پھر اسے معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔
انسان کے ذاتی اوصاف میں بھی سب سے بڑا وصف ایمانداری ہے۔ کسی بھی شخص کے قول و فعل، لین دین اور رہن سہن میں اگر ایمانداری کا عنصر مفقود ہو گا تو اس کی ہر خواہش پر بددیانتی کا عنصر غالب آ جائے گا، جس کا انت تباہی و بربادی ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وطن میں اب یہی صورت حال ہے، ہمارے ملک کے ساتھ حکمران، عوام اور علماء سمیت کوئی بھی ایماندار نہیں ہے، وطن کے ساتھ جب بے ایمانی کی جائے گی تو وطن بددیانتی کے بدلے میں دو گز زمین کا حق بھی چھین لیتا ہے۔
انہوں نے اپنی بات کے ساتھ ہمارے گاؤں کا ایک قصہ سنایا، تو آپ بھی وہ قصہ سنیے:
ڈیڑھ سو برس قبل کی بات ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک گھرانہ تھا جس کے سربراہ کے پاس دینی تعلیم اور مسجد کی امامت کا منصب تھا، لوگ انہیں مولوی صاحب کے نام سے پکارتے تھے، لفظ مولوی ان کے خاندان کے مرد و خواتین کی پہچان بن گیا تھا، مولوی صاحب اس وقت گاؤں کے دیگر باسیوں کی نسبت زیادہ غریب تھے، فصل کٹنے پر لوگ مولوی صاحب کی خدمت کے عوض انہیں گندم وغیرہ کی صورت میں غلہ دیتے تھے۔
تو مولوی صاحب گندم پسوائی کے لیے جب دوسرے گاؤں جاتے تھے تو گندم لادنے کے لیے گدھے کی ضرورت ہوتی تھی، جس کے لیے وہ گاؤں سے کسی شخص سے مانگ لیتے تھے۔ قصہ سنانے والے بزرگ کہنے لگے کہ ایک دفعہ مولوی صاحب ہمارے بزرگوں کے پاس آئے اور کہا کہ ایک بوری گندم پسوانے جانا ہے جس کے لیے آپ کا گدھا چاہیے اور اس طرح جب مولوی صاحب وہ گدھا لیکر گھر گئے، تو ان کی بیوی نے کہا کہ گندم صاف کر دی ہے آپ اسے بوری میں ڈال لیں۔
مولوی صاحب نے "ٹوپہ" بھر بھر کر بوری میں گندم ڈالنی شروع کر دی، ایک ٹوپے میں دو سیر گندم آتی تھی اور بوری میں پچاس ٹوپے گندم ڈالی جاتی تھی جسے اڑھائی من کی بوری کہا جاتا تھا، جب مولوی صاحب نے بوری میں گندم ڈالی تو وہ پچاس ٹوپوں سے تین ٹوپہ گندم بڑھ گئی، مولوی صاحب نے بوری میں صرف پچاس ٹوپے گندم ڈالی حالانکہ بوری میں مزید گندم ڈالنے کی گنجائش موجود تھی، مگر مولوی صاحب نے وہ فالتو کے تین ٹوپے گندم ایک چادر میں باندھ کر اپنے کندھے پر لٹکا لی۔
جب وہ گندم لیکر دوسرے گاؤں جا رہے تھے تو رستے میں جو لوگ ملے وہ پوچھنے لگے کہ مولوی صاحب یہ کیا ماجرا ہے؟ گندم گدھے پر بھی ہے اور کندھے پر بھی ہے، تو مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے گدھا مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ایک بوری گندم پسوانے جانا ہے لیکن جب گھر گیا تو گندم بوری سے زیادہ ہو گئی تھی، میرے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ میں بددیانتی کروں اور ایک بوری کا کہہ کر زیادہ بوجھ لادھ دوں۔
حالانکہ چھ سیر زیادہ گندم سے نہ گدھے کو کچھ فرق پڑنا تھا اور نہ گدھے کے مالک نے کوئی عہد لیا تھا کہ زیادہ بوجھ نہ لادنا، اگر میں ایسا کر بھی لیتا تو کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا تھا، لیکن میں جس ایمانداری کا وعظ دوسروں کو دیتا ہوں، اگر میں اپنی ذاتی زندگی میں ویسا ایماندار نہیں ہوں تو مجھ سے بڑھ کر بدترین شخص بھلا کون ہو گا؟ یوں میرے اخلاق کا دیوالیہ نکل جانا تھا، اور گاؤں والوں نے جو فرض مجھے سونپا ہوا ہے میں اس کے اہل نہ رہتا۔