Bhikari
بھکاری
ہم اپنا کام کاج نمٹا کر، منوڑہ سے سرخاب پر سوار ہوتے اور کراچی پورٹ کی بغل میں کیماڑی جیٹی پر اترنے کے بعد، شہر کراچی کی رونقیں اور رنگینیاں دیکھنے نکل پڑتے تھے۔ تقریباً روز کا آنا جانا تھا، ہمارا کام ہی بندوں کو تاڑنا ہوتا تھا، تو کیماڑی جیٹی کے آس پاس مستقل بھیک مانگنے والوں کے حلیے یاد ہوچکے تھے۔
وہاں پر ایک مانگنے والا ایسا تھا جو دونوں بازوؤں سے معذور، ایک ٹانگ کسی حادثے میں کٹی ہوئی اور باقی جسم پر جابجا بڑے بڑے کھلے منہ والے زخم تھے جن پر ہر وقت مکھیاں بھنبھناتی رہتی تھیں۔ میرے اندر بھی معاشرے کا انجیکٹ کردہ جبری خوف ہوتا تھا کہ اگر کسی مانگنے والے کو نہ دئیے تو اس سے کئی گنا زیادہ ویسے ہی فضول نکل جائیں گے، یا مال میں بے برکتی ہوجائے گی۔ تو میں اپنی جیب پھرول کر سکے نکالتا اور اس فقیر کے سامنے بچھی دری پر ڈال دیتا تھا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، بلکہ اُس دفعہ کا ذکر ہے جن دنوں ٹائی ٹینک فلم کراچی کے سینماؤں کی زینت بنی تھی۔ فلم کی مشہوری ہر کس و ناکس تک برابر پہنچ چکی تھی، تو میں نے اور میرے دوست بخاری نے کہا بھیا پہلی فرصت میں یہ فلم دیکھنی ہے، تو جیسے ہی پہلی فرصت میسر ہوئی، ہم علی الصبح کیماڑی جیٹی پر لینڈ ہوئے، وہاں وہی فقیر ہمیشہ کی طرح موجود تھا۔
اب تو وہ بھی مجھے پہچانتا تھا، علیک سلیک کے بعد اس نے ناشتے کے لیے پیسے مانگ لیے، میں نے بخوشی اسے پیسے دیئے، وہاں سے ہم صدر کی طرف گھومنے نکل گئے کہ چلو وہاں کچھ خریداری کرکے سہہ پہر تین بجے والا شو دیکھیں گے۔ خیر ہم سینما میں پہنچ گئے، فلم بغیر سنسر کے دیکھی، جن دنوں فلم دیکھی تھی، تو یہ جوانی کا وہ دور تھا، جب بندے کو ہارمون اندر سے ٹھیک ٹھاک ٹھڈے مارتے ہیں۔
ہم بھی ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کی وجوہات سے اندرو اندر سرشار تھے، فلم دیکھ کر باہر نکلے تو شام کی ملگجی روشنی کا سماں تھا، باہر نکلنے والے تماشائیوں میں ایک شناسا سا چہرہ نظر آیا، ایک ہاتھ میں پاپ کارن والا شاپر پکڑے ہوئے، دوسرے ہاتھ میں پکڑی آئس کریم کو چاٹتے ہوئے وہ صاحب فلم کے فل ٹرانس میں تھے، میں نے یاد کرنے کی کوشش کی، ذہن پر بہتیرا زور دیا مگر اس چہرے کے متعلق ذہن میں کوئی واضح یاد کا منظر نہ ابھر سکا۔
اچانک اس کی نظر بھی مجھ پر پڑی، چند ثانیے اس کی آنکھوں میں بھی شناسائی کی چمک ابھری اور پھر معدوم ہوگئی، اس نے چہرے کا رخ موڑا اور مخالف سمت چلنا شروع کردیا، اچانک میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا، ارے یہ تو وہی کیماڑی جیٹی پر مانگنے والا معذور زخمی فقیر ہے، میں لپک کر اس کے سامنے ہوا، اسے روکا اور کہا بھائی صاحب مان گئے آپ کو، آپ کی اداکاری کے سامنے تو پوری ٹائی ٹینک فلم فلاپ ہے۔
معذور بن کر خوب لوٹتے ہو اور پھر فلم جیسی عیاشی بھی کرتے ہو، ایک لمحے تو وہ گھبرایا اور کہنے لگا، باؤ جی جانے دو آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں نے اصرار کیا تو کہنے لگا یار ابھی جان چھوڑ دو، باقی باتیں وہاں جیٹی پر کرلیں گے، میں نے کہا نہیں اب تو تجھے نہیں چھوڑنا، یہ کہنے کی دیر تھی، کہ وہ یکلخت چلانے لگا، مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ، یہ شخص مجھے لوٹنے کی کوشش کررہا ہے، اور اس کے ساتھ اس نے ایسی ایسی اعلیٰ نسل کی اصیل گالی سے نوازا کہ اگر گالیوں کا کوئی ایوارڈ ہوتا تو وہ یقیناً بلامقابلہ جیت جاتا۔
وہاں اس کی ہاں میں ہاں ملانے والا ہجوم اکٹھا ہونے لگا، تو سچی بات ہے اپنی جان کے لالے پڑ گئے، ہیرو بننے والے غبارے سے ہوا نکلی تو پھر وہاں سے بھاگ کر جان بچائی، اس کی گالیاں کھانے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ فلم کی وجہ سے لیمارکیٹ جانے کا جو نشہ سا تھا وہ خمار اتر چکا تھا۔ اس کے بعد آئندہ کے لیے توبہ کرلی کہ بھئی جو مرضی ہو پرائے پھڈے میں ٹانگ نہیں اڑانی۔
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو۔