Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Bachpan Ki Gumshuda Eiden, Nostalgia

Bachpan Ki Gumshuda Eiden, Nostalgia

بچپن کی گمشدہ عیدیں۔ ناسٹلجیا

ننھیال سب سے نزدیکی شہر میں تھا، جو بچپن کا طلسماتی شہر تھا، بڑے بڑے بازار، ہوٹل، آم، مالٹے اور امرود کے باغات، ٹیوب ویل جہاں تازہ سبزیاں اور ٹھنڈا پانی ہوتا تھا، دربار پر لنگر، مزار پر قوالی، ریلوے اسٹیشن، سینما گھر، برف خانے، سرکس، جھولے اور تفریح کے میدان تھے، ہماری گرمیوں کی چھٹیاں وہاں گزرتی اور ہر طرح کی خریداری بھی وہاں سے ہوتی تھی۔

رمضان کے شروع میں ماں جی ہم سب بہن بھائیوں کو لیکر شہرِ طلسم یعنی ننھیال کے ہاں عید کی خریداری کیلئے چلی جاتی، ان کا کہنا تھا کہ بعد میں قیمتیں بھی زیادہ ہوجاتی ہیں اور بھیڑ ہوجانے کی وجہ سے بازاروں میں چلنا دوبھر ہوجاتا ہے، بچوں کے میگزین اور بالخصوص جاسوسی ڈائجسٹ سے کہانیوں کے ہیروز کی پہنے جانی والی اشیاء کی چن چن کر ایک لسٹ بناتے تھے، کہ ماں جی کے ساتھ جائیں گے تو یہی خریدیں گے، ہم خود کو نسیم حجازی کا ہیرو سمجھتے تھے اور گھر والے ہمیں ہمیشہ زیرو سمجھتے تھے، اسی لیے ہماری لسٹ جیسی ہم گھر سے تہہ شدہ لاتے ویسے ہی ڈبہ پیک ہمارے ساتھ واپس آجاتی۔

کپڑے اور جوتے ہمیشہ اس رنگ اور سائز کے خریدے جاتے جو ماں جی کو بھا جاتے، اکثر خریداری اسکول یونیفارم کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی تھی، یقین مانیں ہمیشہ یہ کہہ کر اپنے سائز سے بڑے کپڑے اور جوتے ملتے، کہ تم ابھی بڑے ہو رہے ہو اور دو ماہ بعد فلاں رشتہ دار کی شادی بھی ہے اور اسکول میں نیا سال شروع ہونے والا ہے وہاں یہ کام آئیں گے اور ہم جی ہی جی میں کڑھتے چاروناچار لے لیتے، ویسے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

لسٹ میں کریرا کا چشمہ لکھا ہوتا اور ملتا ہمیں پلاسٹک کا پیلا چشمہ، جس کے اندر ایکسرے شیٹ سے کٹے ہوئے پلاسٹک کے شیشے ہوتے تھے، حجازی کے ہیرو کی یہ وقعت تھی کہ پستول بھی پانی والی ملتی تھی، دو چار روز ننھیال کے ہاں رکتے تو چین نہ پڑتا کہ کب گھر جائیں گے اور کب چوری چوری اپنی چیزیں پہن کر اترائیں گے۔۔

گھر واپس آکر ہر روز رات کو سونے سے پہلے ہم سب چپکے چپکے اپنے اپنے کپڑے اور جوتے دیکھتے ان پر پیار سے ہاتھ پھیرتے اور پھر سوتے، عید سے دور روز پہلے ایک اور ظلم یہ ہوتا کہ بابا کریم بہشتی (مرحوم و مغفور) اپنا چمڑے کا چھوٹا سا بیگ لٹکائے آجاتا، اس کے پاس بچوں کے بال کاٹنے کا ایک ہی مینیو ہوتا تھا اور وہ تھا زخمی ٹنڈ، دستی مشین جس کے اندر ارد گرد کے سات دیہاتوں سے لوگوں کے سفید کالے بال پھنسے ہوتے تھے اسکے ساتھ بے رحمی سے ہمارے سر یوں مونڈھتا جیسی دنبے کی اون اتاری جاتی ہے، اوپر سے زخمی ٹنڈ پر پھٹکری پھیرتا ہماری چیخیں نکلتی تو گھر والوں سے عیدی کے ساتھ داد بھی وصول کرتا کہ کیا خوب قابو کیا ہے۔

رشتہ داروں کو بھیجے جانے والے عید کارڈ تو بازار سے خرید کر رمضان یا بڑی عید سے پہلے ہی پوسٹ کردیتے تھے، لیکن ہمجولیوں کو دینے کے لیے رنگ برنگے کاغذوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر مختلف رنگوں سے دل اور پھول بنا کر عید کارڈ بناتے اس پر شعر لکھتے اور جس دوست کو دینا ہوتا اس کا نام لکھتے، پھر اسی کاغذ کا لفافہ بنا کر اس میں تہہ لگا کر اندر ٹیلکم پاؤڈر چھڑک کر بند کردیتے، یہ عید کارڈ ایک شرط پر ہم کسی کو دیتے تھے کہ اگلا بھی جوابی عید کارڈ اور اس میں شعر لکھ کردے گا۔۔

گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی

بچپن کی دوستی چھوڑی نہیں جاتی

ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں کیک

میرا دوست۔۔ لاکھوں میں ایک

حتیٰ کہ اس وقت ہمیں لاکھ کی گنتی بھی نہیں آتی تھی۔

کارڈ صرف دوستوں کو نہیں بلکہ بہن بھائی بھی ایک دوسرے کو دیتے تھے

عید آئی زمانے میں

بھیا گر پڑے غسل خانے میں۔۔

، پھر باقاعدہ گنتی ہوتی تھی جس کے پاس زیادہ کاغذی عید کارڈ ہوتے تھے وہ اتراتا پھرتا اور باقی سب اس سے جلتے تھے، اور جو نہیں دیتا تھا اس سے شکوہ اور دکھاوے کی جھوٹی موٹھی ناراضگی بھی ہوتی تھی۔۔

خواتین ایک دوسرے کے گھروں میں جاکر پیتل کے برتن مانجھتی، کچھ برتنوں کو قلعی ہوتی، چادروں اور سرہانے کے غلاف پر نئے پھول کاڑھے جاتے، صفائیاں اور دیواروں کو مٹی کا لیپ ہوتا۔۔

چاند رات کو کوئلے دہکاتے جاتے اور کوئلوں والی استری سے گھر بھر کے کپڑے استری ہوتے، ہم ساتھ ہاتھ والا پنکھا(پکھی) لیکر بیٹھتے اور کوئلوں کو بجھنے نہ دیتے تھے، استری کا ٹمپریچر کنٹرول کرنے کیلئے گیلے تولیے پر تھوڑی دیر بعد استری پھیر لی جاتی تھی، پھر جوتوں کے ساتھ جرابیں شلواروں کے ساتھ ازار بند قمیضوں کے ساتھ رومال لگائے جاتے، بزرگوں کیلئے صافے مردوں کیلئے سفید چاندی سی اجلی نماز والی ٹوپیاں ترتیب کے ساتھ رکھنا یہ سب کام خواتین اور بچوں کا ہوتا تھا، لڑکیوں کے ساتھ ہم لڑکے بھی مہندی لگواتے جس کی اجازت بڑی مشکل سے ملتی تھی، خواتین رات کو ہی دودھ والی کھیر اور سوجی کے حلوے کے بڑے بڑے دیگچے لکڑیوں اور اپلے والے چولہے پر چڑھا دیتی، بادام گری کشمش وغیرہ بھگو کر رکھ دی جاتی اور بقیہ رات نیند ہماری آنکھوں سے کوسوں دور عید اور عیدی کے انتظار اور خوشی میں گزرنے کا نام ہی نہ لیتی تھی، یہ گاؤں کی تقریباً ہر گھر کی عید سے پہلے تیاری کا منظر ہوتا تھا۔

جوائنٹ فیملی سسٹم ہوتا تھا، عید پر پھوپھیوں اور انکے بچوں کے ساتھ گھر میں ٹھیک ٹھاک رش کا منظر ہوتا تھا، صبح سب سے اہم مسئلہ نماز کیلئے نہانے کا ہوتا تھا، گھر اور حویلی میں غالباً ایک یا دو غسل خانے تھے، نہانے کیلئے پانی کنویں سے بھر کر لانا ہوتا تھا، اور تقریباً دو اڑھائی گھنٹے پہلے ہڑبونگ سی مچ جاتی تھی، غسل خانے کے باہر جستی بالٹیاں اور پانی کے بھرے ہوئے گھڑے رکھ دیے جاتے، باری باری گھڑا بالٹی میں انڈیلتے اور نہاتے جاتے، عید کے روز مسواک کی بجائے دنداسہ کرتے، نئے کپڑے زیب تن کرتے، عطر لگاتے اور مسجد کا رخ کرتے جاتے، خواتین گھر میں عید کے پکوانوں کو سجانے میں لگ جاتی اور محلے میں جو کچھ بھجوانا ہوتا تھا وہ طشتریوں میں ڈال کر اوپر کڑھائی والی دجیاں رکھ کر صحن میں پڑی چارپائیوں پر رکھ دیتی، عید کی نماز کے فوراً بعد قبرستان کا رخ کیا جاتا وہاں فاتحہ کے بعد گھروں کو دوڑتے، ماں جی اور بہنوں کو عید ملتے خواتین بے چاری کھانا پکانے کھلانے بانٹنے اور مہمان نوازی کرتے ظہر کی نماز کے بعد کہیں جاکر نئے کپڑے پہنتیں تھیں۔ تمام دوست ایک دوسرے کے گھروں میں باری باری ٹولیوں کی شکل میں جاتے اور کچھ نہ کچھ کھا پی کر نکلتے، جس کے گھر کوئی جانے سے رہ جاتا تو اس گھر کے بڑے باقاعدہ شام کو آکر شکوہ کرتے اور ناراضگی کا اظہار کرتے۔

عید کی نماز کے بعد ہمیں عیدی کا انتظار رہتا تھا جیسے ہی کہیں سے دو چار روپے عیدی مل جاتی تو ہم فوراً گھر سے رسیاں اور کپڑے دھونے والا لکڑی کا سوٹا اٹھاتے اور حویلی کے پیچھے بیری اور کیکر کے درختوں پر پینگیں ڈالنے کو دوڑ لگاتے، درختوں پر چڑھتے ہوئے ایسے داغ لگاتے تھے جو سرف ایکسل کی بجائے ماں جی کی جوتی سے دور ہوتے تھے، گاؤں میں اکلوتی تفریح یہی ہوتی تھی یا پھر اگر جیب میں اتنی عیدی جمع ہوجاتی کہ چھپ کر ایک عدد آم والی بوتل پی لیتے تھے، گاؤں کی گلیوں میں پلاسٹک کی رنگ برنگے شیشوں والی عینکیں لگائے سارے ہمجولی جتھوں کی صورت میں دوڑتے پھرتے، یہ وہ دور تھا جب لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے یا ملنے میں "سینگ نکلتے ہیں " کا فارمولہ چلتا تھا لیکن عید پر شاید سینگ نہیں نکلتے تھے اس لیے ایک آدھ دن اکٹھے چاٹ چورن کھانے اور پینگ) جھولا) شئر کرنے سے پابندی ہٹا لی جاتی تھی۔

پانی والی پستول یا پھر لاٹری جس میں سے کرکٹ اور فلموں کہ ہیروز کے سٹکرز نکلتے وہ خریدنا عیاشی کے زمرے میں آتا تھا، اگر دور پار کا کوئی رشتہ دار پانچ دس روپے عیدی کی صورت میں دے جاتا تو گھر والے یہ کہہ کر ہتھیا لیتے تھے کہ "او نغلے" ادھر دو پیسے، تم کہیں گم کردو گے، یقین کیجیئے آج تک وہ محفوظ کیے پیسے واپس نہیں ملے ہماری طرف سے تو گُم ہی ہیں۔

آہ! ہم ایک ڈیجٹل جست میں کتنے فاصلے طے کر گئے ہیں۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan