Asal Nahi Badalti
اصل نہیں بدلتی

چند دن قبل ایک ویڈیو دیکھی، کسی مغربی ملک کے دیہی علاقے میں ایک ٹرالر راستے میں خراب ہوگیا۔ ڈرائیور جب نیچے اتر کر ٹھیک کر رہا تھا تو قریبی گاؤں کے دو بچے کھیل ہی کھیل میں کنٹینر میں چھپ گئے۔ جب گاڑی دوبارہ چل پڑی تو بچے اندر ہی رہے اور جب دو سو کلومیٹر بعد ٹرالر رکا تو ڈرائیور نے دروازہ کھولتے ہی دیکھا، دو خوف زدہ بچے خاموش کھڑے ہیں۔ وہ کھیل جو چند لمحوں کا تجسس تھا، اب ایک ٹراما بن چکا تھا۔ زندگی اکثر اسی طرح دھوکے سے آغاز کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب وقتی ہے، مگر جب آنکھ کھلتی ہے تو ہم اپنے اصل سے بہت دور جا چکے ہوتے ہیں۔
اس سے مجھے یاد آیا کہ میں نے اپنی فیملی کے ساتھ ایک بایوگرافکل ڈرامہ فلم دیکھی تھی۔ یعنی سچے واقعے پر مبنی مبینہ یہی کچھ ایک ہندوستانی بچے، سارو، کے ساتھ ہوا۔ وہ صرف پانچ برس کا تھا جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ کارگو ٹرینوں سے کوئلہ چوری کرکے بیچتا تھا۔ ایک شام وہ بھائی کے ساتھ اسٹیشن آیا۔ بھائی نے کہا، یہیں رکنا، میں ابھی آتا ہوں۔ وہ لمحہ زندگی کا بھیانک لمحہ بن گیا۔ سارو انتظار کرتے کرتے کوئلے والی کارگو ٹرین کے ڈبے میں بیٹھ گیا، نیند آئی اور سو گیا، جب آنکھ کھلی تو وہ ہزاروں میل دور کلکتہ پہنچ چکا تھا۔ زبان، چہرے، گلیاں، سب اجنبی۔ وہ روتا رہا، مدد مانگتا رہا، مگر کوئی اس کی زبان نہ سمجھ سکا۔ کسی طرح وہ یتیم خانے پہنچ گیا وہاں پلتا رہا کہ پھر ایک دن ایک آسٹریلوی جوڑے نے اسے گود لے لیا۔ نیا گھر، نئی زندگی، نئی زبان، حتیٰ کہ جغرافیہ سمیت سب کچھ بدل گیا، مگر اندر کہیں کچھ ویسا ہی رہا۔ مٹی کی خوشبو، ماں کے لمس کی یاد اور بڑے بھائی گڈو کی آواز، یہیں رکنا۔
وقت گزرا، سارو جوان ہوا، لیکن دل کا خلا بڑھتا گیا۔ دنیا کی رنگینیوں میں بھی ایک کسک تھی جو بے چین رکھتی تھی۔ ایک دفعہ اس کے گھر میں ہندوستان طرز کی مٹھائی آتی ہے اور وہ مٹھائی اسے ہزاروں میل دور اس کے گاؤں اور بچپن میں لے جاتی ہے جب وہ کوئلہ بیچ کر وہ مٹھائی کھاتے تھے۔ پھر دوستوں کے مشورے پر اپنی یادداشت کے سہارے ایک دن اس نے گوگل ارتھ پر اپنے ماضی کی گلیوں کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ ہر کلک اسے ملتا جلتا منظر دکھاتی مگر وہ سارو کا گاؤں نہیں تھا جہاں اس کی ماں تھی، مگر ہر منظر میں ایک امید ضرور ہوتی تھی۔ بالآخر جب اس کی تلاش رنگ لائی اور برسوں کے بعد جب وہ اپنے گاؤں پہنچا، تو ماں کے چہرے پر وہی روشنی تھی اس کے لمس میں وہی ممتا تھی جو یادداشت میں محفوظ تھی۔ الفاظ ختم ہوگئے، بہتے ہوئے آنسوؤں میں صرف لمس باقی رہا وہی پہچان جو نہ غیر زبانوں سے مٹی، نہ وقت چھین سکا۔
مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ تہذیبیں، لباس، زبانیں اور رواج بدل جاتے ہیں مگر اصل نہیں بدلتی۔ انسان کہیں بھی چلا جائے، اس کے اندر وہی پہلا لمس، وہی خوشبو، وہی گھر کی یاد زندہ رہتی ہے۔ ایک دن اسے اپنے اصل میں لوٹنا پڑتا ہے۔ سارو جو اپنا نام بھی غلط بتاتا تھا اصل نام شیرو تھا اس کی کہانی اس سچائی کا اقرار ہے کہ زندگی کی سب سے طویل مسافت وہ ہے جو انسان اپنے اندر طے کرتا ہے اور اس کو اپنے گھر واپس لے جاتی ہے، جہاں نہ فاصلہ رہتا ہے، نہ وقت، صرف پہلی شناخت اور پہلا لمس باقی رہتا ہے۔

