Apne Liye Chutti
اپنے لیےچھٹی
کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے آخری بار اپنے لیے کب چھٹی کی تھی؟خاندان، یار دوستوں، روزمرہ روٹین اور کام کاج سے وقت نکال کر اپنے آپ کو کب دیکھا اور سنا تھا؟آپ کو کیا چاہیے، اور آپ کتنے بدل گئے ہیں، کیا اس بات کا ادراک ہے آپ کو؟بھاگتی دوڑتی، چیختی چلاتی زندگی سے آخری بار چند لمحے سکون کے کب چرائے تھے، یاد ہے کیا؟سوچئیے اور جواب دیکھیے جو زیادہ تر سب کا یہی ہوگا، دراصل بہت مصروفیات کی وجہ سے بس خود کو وقت نہیں دے پایا، میں تو بس پلاننگ کررہا تھا، فلاں مشکل آڑے آگئی تھی، فلاں پروجیکٹ انتہائی اہم تھا، وغیرہ وغیرہ۔
ہمیں چاہے کوئی کام ہو یا نہ ہو، مگر ہم ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں ۔ہم نے خود کو وقت دینا سیکھا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی خود کو وقت دینے کے متعلق سوچا ہے۔اضطراب، پریشانیاں، اندرونی خلفشار اور نجانے کیا کیا چیزیں ہمارے اندر سما گئی ہیں ۔ہم مسکرانا اور جینا بھول گئے ہیں ۔دکھ اور غم فطری چیزیں ہیں بظاہر ان پر کسی کا اختیار نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی ان جذبات و احساسات سے خالی ہوسکتا ہے، لیکن ان فطری جذبوں کو سنبھالنا کیسے ہے ،یہ تو ہم کرسکتے ہیں، اتنا تو اختیار رکھتے ہیں نااس کے لیے اپنے آپ کو وقت دینا شروع کردیں ۔یقین کریں آپ کے دکھ اور غم، اضطراب اور بے جا تفکرات سب آپ سے دور نکل جائیں گے۔
اپنے آپ کو وقت دیجیے اور کبھی کبھار دنیا کے جھمیلوں سے چند پل نکال کر اپنے آپ کے ساتھ بھرپور وقت گزاریے۔اپنے من کی بھی سنیے اور پھر خود کے لیے بھی تالیاں بجائیے۔اپنے آپ کو وقت دینا ہے کیا؟اکثر سنتے ہیں کہ زندگی پانی کا بلبلہ ہے، میں کہتا ہوں اس بلبلے کو اڑا دیجیے،جی ہاں، پانی لیجیے اس میں سرف یا صابن کو گھول کر بلبلے بنائیے اور ہوا میں اڑائیے۔دل تو بچہ ہے جی، تو اسے بچہ بنائیے،روز کھانا پکاتے ہیں تو ایک دن باہر سے آرڈر کیجیے۔ترتیب سے کیے گئے کاموں کو ایک دن بے ترتیب رہنے دیجیے، ہر وقت مکمل کرنے والے کاموں کو ایک دن نامکمل رہنے دیجیے، جنہیں پورا کررہے ہیں انہیں ایک دن ادھورا چھوڑ دیجیے۔
جو کام ہر وقت عجلت میں ہوتے ہیں انہیں ہینڈ بریک لگائیے۔کم از کم ایک شب الارم لگائے بغیر بھرپور نیند لیجیے، کسی صبح اخبار رہنے دیجیے، کسی شام موبائل بند کردیجیے، کسی رات کتاب رکھ دیجیے۔ایک موبائل ہاتھ میں، ایک کندھے اور کان کے درمیان میں دبا ہوا ہو، ایک ہاتھ کمپیوٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کررہا ہو، اور پھر کبھی کبھی پاس پڑے کپ سے چند گھونٹ چائے کے نام پر بھرے جاتے ہیں، چند لقمے روٹی کے نام پر کھائے جاتے ہیں، چند چمچ بریانی سمجھ کر ٹھونسے جاتے ہیں ۔یہ کھانا بھی کوئی کھانا ہوا؟ بھلا یہ جینا بھی کوئی جینا ہوا؟ایک وقت بے دھیانی، بے دلی اور بے توجہی کو چھوڑ کر مکمل توجہ اور دھیان سے کھانا کھا کر دیکھیے۔
کھانے کی میز ہو، یا آفس کمپیوٹر ڈیسک، ان سب کو چھوڑیے، کسی پسندیدہ مقام پر زمین پر بچھی ہوئی صاف دری پر اپنا پسندیدہ کھانا اپنے بہترین برتنوں میں ڈال کر سامنے رکھیے، بوند بوند، دانہ دانہ، لقمے لقمے کا سواد، رنگ، خوشبو اپنے اندر اتاریے، دھیان اور توجہ سے کھانا سیکھیے اور کبھی کبھار کم از کم ایک بار تو دھیان سے، رک کر ٹھہر کر، اردگرد سے منقطع ہوکر، شانت ہوکر کھانا کھا کر دیکھیے۔پانی کے ہر گھونٹ پر مسکرا کر واہ واہ کیجیے، اور مانیے اسکا یہ سواد پہلی بار چکھ رہے ہیں، چائے کی چسکی لینے سے پہلے، کپ کی خوبصورتی اور چائے کے رنگ سے متاثر ہونا سیکھیے، چائے کے کپ میں سے درویش کی مانند رقصاں اڑتی ہوئی بھاپ کا نظارہ لیجیے، پھر اس منظر کو ہاتھ ہلا کر تحلیل کردیجیے۔
چائے کی چاہت سے چسکی بھریے، اور آہا،کہہ کر زبان کو تسلیم کرنے دیجیے کہ یہ ذائقہ اور ذوق پہلے نہیں تھا، لقمہ توڑتے ہوئے غور سے دیکھیے اور تعریف کیجیے کہ آپ کس کمال نفاست اور خوبصورتی سے نوالہ بناتے ہیں ۔خوشبوؤں، رنگوں، ذائقوں اور اداؤں کو ڈھونڈیے ان کا تعاقب کیجیے، رستہ روک کر استقبال کیجیے، مشینوں سے محبت میں یہ جگنو جیسی چیزیں ہم سے روٹھتی جارہی ہیں ۔اپنے اندر کے بچے کو دریافت کیجیے، اس کی سنیے۔اپنا آپ اپنے حوالے کیجیے اور فطرت کی آغوش میں سر رکھیے، فطرت سب سے بڑی معالج ہے، تھکی ماندہ اور بوسیدہ روح کو بھی نیا پیرہن مظاہر فطرت ہی عطا کرتے ہیں ۔
پہاڑ، دریا، سمندر، صحرا، جنگلوں میں کچھ وقت گزاریے، ہر چیز سے بے نیاز ہوکر سماعتوں پر اترتے فطرت کے پیغامات کو سنیے، آنکھیں بند کیجیے، ہنگاموں سے دور وہ سب سنیے جو فطرت کہہ رہی ہےمگر آپ سننے سے محروم تھے، شریر ہوا کی گھاس سے سرگوشی کو سنیے، اور پھر گھاس کا شرما کر دوہرا ہونا دیکھیے، پتوں کے اوپر سے دھیرے دھیرے سرکتی ہوئی شبنم کی بوند کا رقص دیکھیے، وہ پتے سے جدا ہوکر جب مٹی کے اوپر گرتی ہے، تو اس لمحہء فراقُ وصال کا سوز و ساز سنیے، بوند اور مٹی کی محبت سے اٹھنے والی مہک کو اپنے اندر اتاریے، آنکھ مچولی کھیلتے جھینگر کا نغمہ سنیے، بلند و بالا پہاڑوں پر آگے آسمان کو چھوتے درختوں سے جب ہوا ٹکراتی ہے تو شاخیں جھومتی ہیں، ان جھومتی ہوئی شاخوں سے چھپ چھپ کر جھانکتی ہوئی سورج کی کرنوں سے حرارت کشید کیجیے۔
درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر ریت میں بے مقصد انگلیاں پھیریے، ہاتھوں اور پاؤں کی گھاس پر گری اوس سے ملاقات کروائیے، پودوں کو پانی دیتے ہوئے پھولوں کے گالوں پر چٹکیاں کاٹیے، سورج کو انگشتِ شہادت کے پیچھے چھپائیے اور پھر بچپنے پر کھلکھلائیے۔چاند سے باتیں کیجیے، چاندنی کی جانب چند معنی خیز فقرے اچھال کر پھر مسکرائیے، بازو سر کے نیچے رکھیے، ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر ستاروں کو شمار کیجیے، ہر بار بھول کر خود کو ایک چپت لگائیے اور پھر سے گننا شروع کیجیے۔بے دلی سے جیے تو کیا خاک جیےپانی میں کشتی کو رواں دواں رکھنے کے لیے ہر وقت چلاتے ہوئے پتواروں کو چند پل روکیے، ٹھہریے اور ان پتواروں سے پانی میں چھپا چھپ کرتے ہوئے چھینٹے بھی اُڑا کر دیکھیے۔