Aanar Ki Chori
انار کی چوری
بازار میں ایک غریب لڑکی سر پر ایک ٹوکری اٹھائے ہوئے جا رہی تھی، اس ٹوکری میں انار تھے، وہ لڑکی اپنے کنبے کا پیٹ پالنے کی خاطر یہ انار فروخت کرتی تھی۔بازار میں بیٹھے ایک بزرگ نے دیکھا کہ ایک شخص دبے پاؤں اس لڑکی کا پیچھا کرتے ہوئے جیسے ہی لوگوں کی بھیڑ میں پہنچا تو اس نے نظر بچا کر کمال ہوشیاری سے اس ٹوکری سے ایک انار اچک لیا، اس چوری کا اس لڑکی کو علم نہ ہوسکا اور وہ بنا دیکھے آگے نکل گئی۔
بزرگ کہتے ہیں مجھے اس واقعے سے بڑا تعجب ہوا اور اشتیاق بھی کہ ذرا دیکھوں تو سہی یہ شخص اب انار کا کیا کرتا ہے۔ وہ بزرگ کہتے ہیں میں بچتے بچاتے اس شخص کا پیچھا کرنے لگا، وہ شخص زیادہ دور نہیں گیا تھا، چند قدم چلنے کے بعد رکا اور بازار کے ایک طرف جہاں رش کم تھا وہاں بیٹھے ہوئے ایک نابینا فقیر کی جھولی میں وہ انار ڈال دیا اور چلتا بنا۔بزرگ کہتے ہیں یہ میرے لیے آج دوسرا حیران کن واقعہ تھا، میں نے قدموں کی رفتار تیز کی اور تھوڑی دور جاکر اس شخص کو جالیا۔
اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج میں نے بازار میں ایک عجیب و غریب واقعہ دیکھا ایک چور نے چوری کرنے کے بعد مال مسروقہ خود استعمال کرنے کی بجائے کسی اور کے حوالے کردیا اور خود خالی ہاتھ رہ گیا میں تو سمجھا تھا اس نے بھوک کی غرض سے انار چرایا ہوگا لیکن یہ معاملہ تو مختلف ہےوہ شخص مسکرایا اور کہنے لگا:حضرت یہ چوری نہیں یہ میں اپنے رب کے ساتھ تجارت کرتا ہوں ۔بزرگ نے حیران ہوکر پوچھا کہ آپ اپنے رب کے ساتھ تجارت کرتے ہو، یہ کیسی تجارت ہے۔
اس شخص نے کہا میں نے یہ چوری کی تو میرے نامہ اعمال میں ایک برا عمل لکھا گیا اور پھر میں نے صدقہ کردیا اور لکھنے والے نے میرے حساب میں دس نیکیاں لکھ دیں تو برائی کا بدلہ اس جیسی برائی اور اچھائی کا بدلہ اس سے دس گنا زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔میرے پاس ایک برائی اور دس نیکیاں ہیں اب میری برائی کو میری اچھائی مٹاتی ہے تو میرے نامہ اعمال میں میرے رب کے پاس نو نیکیاں باقی ہیں اسطرح میں اپنے رب کے ساتھ تجارت کرتا ہوں ۔
بزرگ کہنے لگےنہیں تم نے چوری کی تو تمھاری اس رب کے دفتر میں چوری ہی لکھی گئی ہے، اور وہ مال جو تم نے صدقہ کیا وہ چوری کا ہی مال لکھا گیا ہےان سے حاصل ہونے والی نیکیاں تمھارے پاس عارضی ہیں تم سمجھتے ہو کہ اسطرح تم حساب والے دن نیکیوں کے بڑے ڈھیر کے مالک ہوگے تو سنو دراصل یہ نیکیاں ان مظلوموں کے پلڑوں میں جائیں گی جن کا مال چوری کرکے تم نیکیاں جمع کرتے رہے، آخر میں تم صرف ان برائیوں کے مالک رہ جاؤ گے جن سے تم نے دنیا میں کوئی لذت بھی حاصل نہ کی خون سے خون صاف نہیں کیا جاسکتا، ناپاک کپڑوں کو دھونے کے لیے پاک پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
رب جمیل ہے اور جمال سے محبت رکھتا ہے ایسے ہی رب طیب ہے اور طیب کے سوا کچھ بھی قبول نہیں فرماتا،مکمل علم کے بغیر لوگ اپنے لیے یا دوسروں کے لیے فتویٰ گھڑ لیتے ہیں اور باطل سے استدلال کرتے ہوئے باطل پر ڈٹ جاتے ہیں، الٹا اپنے باطل عمل پر ضد کرتے ہیں کہ ہمیں حق پر سمجھا جائےوہ حلال و حرام کے لیے خود ساختہ جواز تراش کر ان کا دفاع کرنے لگ جاتے ہیں، خود کو بہترین ثابت کرنے کے لیے یہ صریحاً دھوکہ ہے لوگوں کے ساتھ اور اپنے نفس کے ساتھ ۔رب مجھے اور آپ کو بری خواہش کی غلامی اور اس شخص جیسی عارضی نیکیوں سے بچائے۔