Kill The Door (2)
کِل دا ڈور (2)

گھروں میں لگے دروازے اور کھڑکیاں، کمروں میں بنے طاق اور روشندان ہمیشہ ہی سے مثبت سوچ اور عملی رجحان کے استعارے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں کی مشرقی حکمت ہو یا پرلے پار (مغرب) کی فراست۔ فلسفے کی گتھیاں ہوں یا عقل و دانش کے بکھرتے موتی، سب میں کہیں نہ کہیں روزمرہ کے معمول کے واقعات سے کمال سبق آموز بات نکل کے سامنے آتی ہے۔ ان معمول کی باتوں اور واقعات سے کارآمد بات نکالنا اور اس کو دوسروں کو بتانا اور سمجھانا ایسا آساں بھی نہیں۔
اشفاق احمد صاحب نے ایک روز اپنے اٹلی کے قیام کی باتوں میں ایسی ہی ایک بات پہ گفتگو کر رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ جب وہ گھر میں داخل ہوتے تو ان کی مکان مالک خاتون (لینڈ لیڈی) باآوازِ بلند کہتی کہ دروازہ بند کر دو۔ تو اشفاق صاحب اہتمام سے دروازہ بند کرتے کہ مبادا پھر سے آواز نہ پڑ جائے۔ لیکن جیسا کہ ہم برصغیر والوں میں عمومی رویّہ ہے کہ ہم بے ترتیبی میں زیادہ آرام دہ (کمفرٹیبل) رہتے ہیں تو اشفاق صاحب کے من میں بھی ایسے سوالات سر اٹھاتے تھے کہ دورازہ بند کرنے پہ آخر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے؟
انسانی جبلت ہے کہ کوئی سوال سر اٹھائے تو جواب کی تلاش سرگرداں رکھتی ہے، بھیتر جواب جاننے کی جستجو، چارہ جوئی اور کھوج جاری رہتی ہے۔ شروع شروع میں تو اپنی سوچ و بچار کے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں کہ کوئی در وا ہو۔ یہی کچھ اشفاق صاحب کے ساتھ بھی ہوا کہ شاید یہاں (اٹلی) کے موسمی حالات کی وجہ سے یہ بندش لگائی جاتی ہے کہ کہیں برف گھر میں داخل نہ ہو جائے یا خنکی کے باعث کوئی سرد جھونکا اپنے تحائف نہ بانٹ جائے۔ لیکن پھر بھی یہ کھد بد رہتی کہ اگر کبھی دروازہ تھوڑا سا کھلا رہ بھی جائے تو کیا؟ اگر کبھی کچھ برف اندر آ بھی جائے تو کیا حرج؟ اگر باہر کی ہوا کا سرد جھونکا اندر کے گرم ماحول کو کچھ متغیر کر بھی دے تو کیا فرق پڑے گا؟ دروازے کو بند کرنا ہی ایسا کیوں ضروری امر ہے۔
جاپانی کہاوت ہے کہ جو سوال نہ آتا ہو تو پوچھ لو۔ لیکن آپ اگر اس وجہ سے نہ پوچھو کہ لوگ کیا کہیں گے کہ کیسا بے وقوف ہے کہ اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔ تو وقتی طور پہ آپ بے وقوف نہیں کہلائے جائیں گے مگر پھر آپ ساری عمر بے وقوف ہی رہیں گے۔ تو ایک روز اشفاق صاحب نے اپنی اس مکان مالک خاتون (لینڈ لیڈی) سے اس راز کے بارے پوچھ ہی لیا کہ آپ کے ہاں دروازہ بند کرنے پہ اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر کبھی کبھار کچھ تھوڑا سا دروازہ کھلا رہ جائے تو بعد میں بھی بند کیا جا سکتا ہے۔
تو اس خاتون نے عقدہ کھولا کہ ہم بچوں کی تربیت میں اس عمل کو لازماً استعمال کرتے ہیں۔ بظاہر تو ہم انہیں اپنے پیچھے گھر کا دروازہ بند کرنے کو کہتے ہیں لیکن اس استعارے سے ہم ان کی تربیت کرتے ہیں کہ زندگی میں جو کام ماضی میں ہو چکا اس کا دروازہ اپنے پیچھے بند کر دو اور اپنے حال میں داخل ہو جاوَ اور نئے دروازے، نئے راستے، نئے مواقع، نئی منزلوں کی جستجو میں لگ جاوَ۔ یعنی یہ جو دروازہ ہم اپنے پیچھے بند کرتے ہیں اس کے معانی صرف ظاہری بندش کے نہیں ہیں بلکہ یہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اپنے پیچھے (ماضی)کو بند کر دو۔ ماضی کی یاد میں وقت گزاری نہ صرف وقت کا ضیاِع ہے بلکہ یہ آگے بڑھنے، نئے دروازے کھولنے، نئے امکانات وا ہونے اور نئی راہوں کے سفر میں بھی مشکل ڈالے گی۔
اپنے پیچھے دروازے (ماضی) کو بند کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اب اس سے توجہ ہٹ کے اپنے اگلے اقدام (حال) کی جانب مبذول ہو جائے۔ اگر ہم اپنے پیچھے تھوڑا سا بھی دروازہ کھلا چھوڑ دیں گے تو دھیان بار بار اس کھلے دروازے کی جانب جائے گا اور عین ممکن ہے کہ توجہ اس ادھ کھلے دروازے پہ ہی ٹکی رہے اور ہم نئے کھلنے والے دروازوں (امکانات) کا ادراک ہی نہ کر سکیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی اسی کھلے دروازے سے باہر نکلنے کو دل کرے، تو کبھی یہ اندیشہ بھی پیدا ہو سکتا کہ باہر کا غبار (مایوسی) ہی اندر نہ آ جائے اور ہماری ہمت و حوصلے کو دھندلا نہ دے یا باہر کی سرد ہوا کا جھانکا (پچھتاوا) ہمارے ارادے کی پختگی کی حرارت کو کم نہ کر دے۔
سب حاضر سانس ہے۔ جیسے فی زمانہ ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخصیت تو "صاحبِ حال" ہیں یعنی وہ حال میں رہتے ہیں اور اپنا عمل جاری رکھتے ہیں۔ کیونکہ صاحبِ حال کو نہ یادِ ماضی کی فکر ہوتی ہے، نہ ہی ماضی کے پچھتاوں میں الجھتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کے اندیشے انہیں ستاتے ہیں۔ دانائے راز فرماتے ہیں کہ جو ماضی کے غم کا دکھ مناتا رہتا ہے وہ مستقبل کے آنے والی خوشی کا استقبال نہیں کر سکتا۔ اس لئے "ڈریکٹ حوالدار" کی اصطلاح کِل دا ڈور کو عملی شکل پہننا بہت ضروری ہے کہ زندگی کی گاڑی بخوبی رواں رہے۔