Takhleeq e Insani Mein Qudrat e Khudawandi Ki Nishaniyan (2)
تخلیق انسانی میں قدرت خداوندی کی نشانیاں (2)
کان کے گرد سیپ کی شکل میں پردہ رکھا کہ آواز وہاں جمع ہو کر پھر سوراخ کی طرف بڑھے حتیٰ کہ کیڑے کے چلنے کی آہٹ بھی محسوس ہو جائے، کان میں اونچ نیچ اور ٹیڑھا پن رکھا تاکہ اندر داخل ہونے والے کیڑے کا راستہ طویل اور حرکت زیادہ ہو کہ نیند کی حالت میں بھی اس پر خبر ہو جائے۔
قُلۡ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ
کہہ دو وہی تو ہے جس نے تمکو پیدا کیا اور تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔ مگر تم کم ہی احسان مانتے ہو۔ (سورۃ الملک آیت 23)
چہرے کے درمیان ایک خوبصورت ناک اٹھائی اس کے دونوں نتھنوں کو کھولا اور اس میں سونگھنے کی حس رکھی تاکہ بو کو سونگھ کر اپنے کھانے پینے کی اشیاء کو جان سکے۔ منہ کو کھولا اور اس میں بولنے، ترجمانی کرنے اور دل کی بات بیان کرنے کے لیے زبان رکھی نیز منہ کو موتیوں جیسے دانتوں سے زینت بخشی تاکہ کاٹنے، پیسنے، اور توڑنے کا کام دیں۔ ان کی جڑوں کو مضبوط، سروں کو تیز اور رنگ کو سفید بنایا۔ سب کے سر برابر رکھ کر ان کی صفوں کو ترتیب دیا گویا لڑی میں پروئے موتی ہوں۔
ہونٹوں کو رنگ اور ان کی شکل کو خوبصورت کیا تاکہ منہ پر بھلے لگیں اور منہ کے سوراخ کو بند کریں۔ گلے میں نالی پیدا فرما کر اسے آواز نکالنے کے لیے تیار کیا، زبان کو حرکت کی قوت بخشی تاکہ آواز کو کاٹے جس کے سبب حروف مختلف مخارج سے نکلیں اور کثرت حروف بولنے کے باوجود کوئی دقت نہ ہو۔ پھر تنگی، کشادگی، سختی، نرمی، لمبائی اور چھوٹائی کے اعتبار سے نرخوں کو مخلتف شکلوں پر پیدا کیا تاکہ ان کے اختلاف سے آوازیں مخلتف رہیں۔
غور کریں دو آوازیں ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ فرق واضح ہوتا ہے یہاں تک کہ سننے والا اندھیرے میں بھی لوگوں کی آواز سے ہی ان کی پہچان کر لیتا ہے۔ پھر اس ذات نے سر کو بالوں اور کنپٹیوں سے آراستہ کیا، چہرے کو داڑھی اور ابروؤں سے زینت بخشی، ابروؤں کو کمانی شکل باریک بالوں سے خوبصورتی دی اور آنکھوں کو پلکوں کی جھالر سے دلنشین کیا۔ ہاتھوں کو لمبا کیا تاکہ مقاصد کی طرف بڑھ سکیں، ساتھ ہی ہتھیلی کو چوڑائی دی اور پانچ انگلیوں میں تقیسم کر دیا، ہر انگلی کو تین تین پورے دئیے، چار انگلیوں کو ایک طرف اور انگوٹھے کو اکیلے رکھا تاکہ ان چاروں پر گھوم سکے۔
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے۔ پھر اسکو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی۔ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا پھر اسکو نئی صورت میں بنا دیا۔ سو بڑا برکت والا ہے ﷲ جو سب سے اچھا بنانے والا ہے۔ (سورۃ المؤمنون آیت 12 تا 14)
یہ تمام کام ﷲ تعالیٰ نے اس نطفہ سے پیدا فرمایا جو رحم کے اندر تین پردوں میں چھپا ہوا تھا۔ اگر بالفرض ان پردوں کو ہٹا دیا جائے اور ہماری آنکھ وہاں تک رسائی حاصل کر لے تو دیکھیں گے کہ اس کی تصویر خود بخود بنتی چلی جاتی ہے نہ کوئی مصور نظر آتا ہے نہ آلہ تصویر۔ اب آپ ہی بتائیں کیا کبھی آپ نے ایسا مصور دیکھا ہے جو آلہ صنعت کو چھوئے نہ مصنوع کو ہاتھ لگائے پھر بھی اس میں اس کا تصرف چلتا رہے؟ اس پاک ذات کی شان کتنی بلند اور دلیل کتنی واضح ہے۔
ﷲ کے کمال قدرت کے ساتھ ساتھ اس کی وسیع تر رحمت کی طرف نظر کریں کہ جب بچے کے بڑا ہو جانے سے رحم تنگ ہو جاتا ہے تو ﷲ اسے کس طرح راستہ دکھاتا ہے حتیٰ کہ بچہ اوندھا ہوتا ہے، حرکت کرتا ہے اور اس تنگ جگہ سے نکلنے کی راہ تلاش کرتا ہے، گویا جس چیز کی اسے حاجت ہے وہ اسے جانتا اور دیکھتا ہے۔
اَلَمۡ نَخۡلُقۡکُّمۡ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ فَجَعَلۡنٰہُ فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ اِلٰی قَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ
کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے نہیں پیدا کیا۔ پھر اس کو ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ ایک وقت معین تک۔ (سورۃ مرسلت آیت 20 تا 22)
پھر دیکھیں جب وہ باہر آ جاتا ہے تو اور خوراک کا محتاج ہوتا ہے ﷲ کیسے چھاتی کی طرف اسے راہ دکھاتا ہے؟ پھر جب اس کا کمزور بدن بھاری غذا برداشت نہیں کر سکتا تو کیسے غلاظت اور خون کے درمیان سے خالص صاف ستھرا دودھ نکالتا ہے۔ کیسے ماں کے پستان بنائے اور ان میں دودھ کو جمع کیا، ان کے سرے ایسے بنائے کہ بچے کا منہ ان کو سما سکے۔ پھر ان دونوں میں انتہائی باریک سوراخ رکھے حتیٰ کہ مسلسل چوسنے کے بعد ہی ان میں سے تھوڑا تھوڑا دودھ نکلتا ہے کیونکہ بچہ اتنے ہی کو برداشت کر سکتا ہے۔ پھر دیکھیں کہ کیسے بچے کو چوسنے کا طریقہ سکھایا کہ اس تنگ سوراخ سے شدید بھوک کے وقت کثیر دودھ نکلتا ہے۔
پھر ﷲ عزوجل کی رحمت اور لطف و کرم کو دیکھیں کہ اس نے دانتوں کی پیدائش کو مؤخر رکھا کیونکہ شروع میں غذا دودھ ہی ہوتی ہے جس کے لیے دانتوں کی ضرورت نہیں۔ پھر کس طرح نرم و نازک مسوڑوں سے سخت ہڈیوں کو نکالا ہے۔ پھر والدین کے دلوں میں اس کے لیے نرم گوشہ رکھا کہ جس وقت میں وہ اپنا انتظام کرنے سے عاجز ہے والدین اس کے لیے اہتمام و تدبیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد
اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ
کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسکو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا۔ (سورۃ یس آیت 77)
پھر دیکھیں کس طرح ﷲ اسے طاقت، تمیز، عقل اور ہدایت دیتا ہے حتیٰ کہ وہ عاقل بالغ ہو جاتا ہے۔ سن بلوغت کو پہنچتا ہے پھر نوجوان ہو جاتا ہے اس کے بعد جوان پھر ادھیڑ عمر اور پھر بوڑھا ہو جاتا ہے پھر یا تو وہ ناشکرا ہوتا ہے یا شکر گزار، نافرمان ہوتا ہے یا فرمانبردار، مومن ہوتا ہے یا کافر۔ ﷲ کا فرمان اس کی تصدیق کرتا ہے۔
ہَلۡ اَتٰی عَلَی الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّہۡرِ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا
بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آ چکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ ہم نے انسان کو ملے جلے نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسکو سنتا دیکھتا بنایا۔ یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ اب خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا۔ (سورۃ الدھر آیت 1 تا 3)۔