Bhooke Log
بھوکے لوگ

زارا کپڑوں میں دنیا کا مشہور برآنڈ ہے۔ بنیادی طور پر یہ مڈل کلاس کے لیے شروع ہوا تھا مگر کوالٹی کے سبب اور وقت کے ساتھ مہنگا بھی ہوتا گیا اور اب یہ مڈل کلاس کی دسترس سے بھی باہر نکل رہا ہے۔ ایک بار مراکو میں ایک مال میں داخل ہوا۔ زارا کے سٹور پر فلیٹ چالیس فیصد آف لگا ہوا تھا۔ سٹور میں معمول کا رش تھا جیسا عام دنوں میں مالز میں ہوتا ہے۔ کوئی افراتفری نہیں۔ کوئی چھینا جھپٹی نہیں۔ بلکہ انتہائی سکون تھا۔
جن ممالک میں آج تلک گیا ہوں وہاں میں نے کبھی کسی برآنڈ کی سیل پر یا کسی فوڈ چین پر افراتفری و بدنظمی نہیں دیکھی۔ دنیا بھر میں طبقاتی تقسیم دیکھی ہے۔ یہ حقیقت ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ مگر خلیج اتنی گہری نہیں ہوتی جتنی ہمارے ہاں ہو چکی ہے۔ امیر و غریب میں فرق ضرور ہوتا ہے مگر اتنا واضح نہیں ہوتا کہ آپ حال حلئیے یا اس کے کھانے سے پہچان لیں کہ امیر کون ہے اور غریب کون۔ ایک تو غربت کا مطلب بھی واضح کرنا ضروری ہے۔ غربت اسے کہتے ہیں جس میں انسان ہینڈ ٹو ماؤتھ ہوتا ہے۔ یعنی جتنا کماتا ہے اتنا ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ بچ نہیں پاتا۔ اثاثہ بن نہیں پاتا۔ ایسی کلاس کو دنیا غریب گردانتی ہے اور حقیقت میں غربت ہوتی بھی یہی ہے۔
ہمارے ہاں مسئلہ غربت تو ہے ہی مگر اصل مسئلہ بھوک ہے۔ بھوک جسمانی ہو یا نفسیاتی وہ انسان کو عزت نفس کا سودا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہم بھوکے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں کروڑوں بھوکے لوگ ہیں۔ یہاں مسئلہ امیر اور غریب میں نہیں۔ یہاں مسئلہ مڈل اور اپر مڈل کلاس میں ہے۔ ایک حقیقی بھوک ہے دوجا مڈل و اپر مڈل کلاس کی نفسیاتی بھوک ہے۔
مثال کے طور پر، آپ ذرا تصور کریں کہ اگر زارا پاکستان میں ہو اور وہ چالیس فیصد سیل لگائے تو یہاں کیا حال ہو؟ یہ قوم جو کھاڈی، سفائر اور وغیرہ وغیرہ کے سٹورز پر سیل پر پِل پڑتی ہے یہ تو زارا کے سیلز بوائز و گرلز کے چیتھڑے بھی اڑا کے لے جائیں اور ایسی حرکات امیر انسان نہیں کرتے، نہ ہی غریب انسان کرتے ہیں۔ یہ حرکات وہ طبقہ کرتا ہے جو مڈل اور اپر مڈل کلاس کے بفر زون میں ہوتا ہے۔ جو کچھ خوشحال ہے مگر مکمل خوشحال بھی نہیں۔ جو اتنا تو افورڈ کر سکتا ہے کہ سیل پر کسی طرح خرید لے مگر اتنا افورڈ نہیں کر سکتا کہ نارمل پرائس پر برآنڈز کو مسلسل خرید سکے۔ جس کا کاروبار میں کوئی جیک لگ جائے تو مڈل کلاس سے نکل کر اپر مڈل میں آ جاتا ہے اور کچھ نقصان ہو جائے تو اپر مڈل سے نیچے مڈل کلاس میں آ جاتا ہے۔
میکڈونلڈز، کے ایف سی، پیزا ہٹ وغیرہ وغیرہ وغیرہ پوری دنیا میں سستا فوڈ سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں پھیلی حقیقی و نفسیاتی بھوک اور پست معیار زندگی کے سبب یہ سٹیٹس سمبل ہے۔
یہ برآنڈز پر ٹوٹتا طبقہ نہ امیر ہے نہ غریب۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ خبروں کی سرخیوں میں یا سوشل میڈیا پر ایسی حرکات پر مبنیٰ تصاویر کے نیچے لوگ امیروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں تو مجھے ہنسی آ جاتی ہے۔ یہ ہم ہی لوگ ہیں صاحبو۔ اس ملک کا مڈل کلاس طبقہ۔ پڑھا لکھا، ڈگری یافتہ، وائٹ کالر۔۔ یہ نفیساتی بھوک ہے اور سائنس آج تک نفیساتی بھوک کا کوئی علاج دریافت نہیں کر سکی۔
غریب یا غربت کی لکیر کے تھوڑا اوپر نیچے بستے طبقے کی بھوک کا معیار الگ ہے۔ اس کی بھوک جسمانی بھوک ہے۔
جیسے ہی شادی کے کھانے کی اسٹیل ڈشوں کے نیچے بیرے اسپرٹ لیمپ روشن کرتے ہیں۔ مشاق کھلاڑی کھانے سے سجی طویل میز کی جانب آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کردیتے ہیں اور جیسے ہی بیرے ٹنا ٹن کی آواز کے ساتھ ڈھکن اٹھاتے ہیں، پہلا دستہ تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے ڈشوں پر قبضہ کرکے اچھی اچھی بوٹیوں کا پہاڑ اپنی پلیٹ میں بنا کر وہیں کھڑا کھڑا کھانا شروع کردیتا ہے اور باقی ہجوم کے حصے میں محض شوربا اور ہڈیوں سے لگا تھوڑا سا گوشت ہی رہ جاتا ہے۔ کچھ منچلے تو پوری پوری پرات اغوا کرکے اپنی میز تلک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں کچھ پروفیشنل مہمانوں کے پیٹ حلق تک بھر جاتے ہیں، کچھ صرف بھوک ہی مٹا پاتے ہیں اور کئی بھوک بھی نہیں مٹا پاتے اور گھر جا کے کھانا زہرمار کرتے ہیں۔
جیسے ہی امدادی اشیا کا ٹرک آتا ہے تو مسٹنڈے مصیبت زدگان کمزور مصیبت زدوں کو پیچھے دھکیل کر ٹرک گھیر لیتے ہیں۔ رضاکاروں کو بھی چونکہ واپسی کی جلدی ہوتی ہے لہذا وہ ہر بڑھے ہوئے ہاتھ کو مستحق فرض کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ تھما کر نکلنے کی سوچتے ہیں۔ جس کے ہاتھ جو لگتا ہے وہ تو لگتا ہی ہے مگر وہ دوسرے سے بھی مزید کمبل، خوراک یا برتن جھپٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ کمزور مصیبت کے مارے دور کھڑے اپنی بے بس آنکھیں پٹپٹانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔
پنجاب میں پرانے لوگ آج بھی یہ محاور بولتے ہیں "کھادا پیتا واہے دا، باقی احمد شاہے دا"۔۔ یعنی جو کھا پی سکتے ہو وہی تمہارا ہے جو بچ گیا وہ احمد شاہ (ابدالی) لوٹ کر لے جائے گا۔ اس ایک مثال سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے احساس عدم تحفظ کے تاریخی برگد کی جڑیں اس جغرافئیے میں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں اور ہمارا دماغ سوائے اس کے کچھ اور کیوں نہیں ہو سکتا کہ جو ہاتھ لگتا ہے لے اڑو، کل کس نے دیکھی ہے۔

