Friday, 13 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Yar Tum Kaise Manage Karte Ho?

Yar Tum Kaise Manage Karte Ho?

یار تم کیسے مینج کرتے ہو؟

میں ذاتی طور پر بائیک پر طویل سفر کرنے والے ٹورسٹ بائیکرز کا بہت زیادہ احترام اور قدر کرتا ہوں۔ جو بات میں کہنے جا رہا ہوں اس کی صداقت و حقانیت کی گواہی بھی بائیکرز دے سکتے ہیں اور اس دُکھ کو بھی وہ ہی بہتر جان سکتے ہیں۔ ساری جوانی میری بائیک پر گزر گئی۔ بائیک چھوڑے مجھے آٹھ سال ہوئے ہیں۔ کبھی کبھار اب بھی چلا لیتا ہوں۔ مگر ساری زندگی بائیک پر میں نے کبھی طویل سفر نہیں کیا۔ یعنی ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں گیا۔ ایک بار مجھے شدید شوق پیدا ہوا تھا کہ میں بھی بائیکرز کی مانند قراقرم ہائی وے پر گلگت بلتستان کا سفر کروں۔

یہ بات آج سے دس سال پرانی ہے۔ میرے پاس سو سی سی فور سٹروک لال یاماہا ہوتا تھا۔ میں نے اسے تیار کروایا۔ اس کے پیچھے سٹوریج ٹینک انسٹال کروایا۔ بڑی تیاری کی اور میں گھر سے چل دیا۔ سیالکوٹ سے نکلا۔ وزیرآباد کراس کیا۔ نان سٹاپ گجرات پہنچ گیا۔ دل کیا کہ گجرات ذرا بریک لے لوں مگر پھر خیال آیا کہ لمبا سفر ہیں مجھے پہلی بریک جہلم جا کر لینا چاہئیے۔ راہ میں ایک بار ٹینک فل کروانے کو رکا تھا مگر بائیک پر ہی بیٹھا رہا۔ کچھ کھایا پیا تو تھا نہیں اس لیے واش روم جانے کی حاجت بھی پیش نہ آئی تھی۔ سفر اچھا بھلا گزر رہا تھا اور میں فُل انرجیٹک فیل کر رہا تھا۔ میرے خیالوں میں وہ سین آ رہے تھے کہ جلد میں قراقرم ہائی وے پر بائیک چلاتا یوں جا رہا ہوں گا ووں جا رہا ہوں گا۔

بس بھائیو چلتے چلتے جہلم آ گیا۔ میں نے ایک ڈھابے پر بریک لگائی۔ سوچا کچھ ہلکا سا کھا پی لوں۔ جیسے ہی بائیک سے اُترا مجھے محسوس ہوا جیسے میری ٹانگیں شل سی ہو رہی ہیں۔ میں قدم لیتے لڑکھڑا سا گیا۔ تھکاوٹ کے سبب اور مسلسل ایک ہی پوز میں بیٹھنے کے سبب گردش خون متاثر ہوئی تھی۔ مجھے اپنا نچلا دھڑ سُن سا لگ رہا تھا۔ مگر بھائیو قیامت تو مجھ پر اس لمحے بیت گئی جب میں پیشاب کرنے واش روم پہنچا۔ یکایک احساس ہوا کہ میرے فوطے غائب ہیں۔

اللہ جانے اس وقت میرے بدن میں کیسا سنسنی خیز طوفان اُٹھا تھا۔ میرا دماغ اس بات کو ماننے سے انکار کر رہا تھا۔ مگر میری چھونے کی حِس مجھے بتا رہی تھی کہ وہ وہاں نہیں ہیں۔ یہ احساس بہت ڈراؤنا تھا۔ میرے ساتھ تو پہلی بار ہوا تھا۔ آخر وہ کہاں غائب ہو سکتے تھے؟ اور پھر دونوں ایک ساتھ کیسے غائب ہو سکتے تھے؟ مجھے یاد ہے ڈر کے مارے میں فوراً ہسپتال جانے کی سوچ رہا تھا۔ مجھے احساس ہوگیا تھا کہ کچھ بہت شدید گڑبڑ ہو چکی ہے مگر کیا گڑبڑ ہے اس کا علم نہیں تھا۔

پہلے میں نے سوچا اپنے سیالکوٹ والے ڈاکٹر صاحب کو کال کر لوں پھر خیال آیا کہ فون پر ان کو کیا مسئلہ بتاؤں گا؟ آخر کچھ ہوا ہو تو بتاؤں ناں۔ نہ میرا ایکسیڈینٹ ہوا نہ مجھے کوئی چوٹ لگی۔ اچھا بھلا صحیح سلامت تھا۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ کوئی فالتو کی شے تھی جو میں نے راہ میں بھول چُوک کر پھینک دی۔ گھبراہٹ میں کافی وقت بیت گیا۔ رفتہ رفتہ مجھے احساس ہوا کہ وہ واپس آ گئے ہیں۔ میں نے فوراً چھو کر دیکھنا چاہا۔ وہ واپس اپنے مقام پر موجود تھے۔

دراصل بائیک پر لمبا عرصہ بیٹھنے کے سبب ایسا ہو جاتا ہے۔ گردش خون متاثر بھی ہوتی ہے اور وہ اوپر کہیں چڑھ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ میرا ساتھ تو پہلی بار ہوا تھا اس لیے مجھے اس کا نہ تجربہ تھا نہ معلومات تھیں۔ جب سب نارمل ہوگیا تو میں نے ڈھابے پر کھانا کھاتے سوچ و بچار کیا اور اس حتمی نتیجے پر پہنچا کہ میں بائیک پر گلگت بلتستان نہ جا پاؤں گا۔ یہ مجھ سے نہ ہو پائے گا۔ واپس گھر کی راہ لی مگر واپسی کی راہ میں دو تین مقام پر رُکتا آیا۔

اور یوں میں بائیکر نہ بن پایا۔ بس اسی سبب میں بائیکرز کو بہت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ وہ درحقیقت تن من دھن کی قربانیاں دے کر سفر کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ لمبے سفروں میں وہ ہر مقام پر بریک لیتے اپنا ساز و سامان بھی چیک کرتے ہوں گے۔ شاد آباد رہیں سب۔

گھر واپس پہنچا۔ سابقہ مسز نے مجھے دیکھا تو چونک کر بولی "کیا بات ہے آپ گئے نہیں؟"۔ اب اسے کیا وجہ بتاتا میں نے کہہ دیا کہ نہیں مجھے اس بائیک ٹور میں کچھ پازیٹیو وائبز نہیں آ رہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میرا دماغ مسلسل مجھے اس خیال سے ڈرا رہا تھا کہ آج تو واپس مل گئے اگر کل کو وہ مستقل طور پر داغِ مفارقت دے گئے تو میں دھرتی پر نرا بوجھ بنا رہ جاؤں گا لہٰذا قدرت کے پہلے اشارے کو ہی جائے عبرت سمجھو۔

میں نے ابرار حسین وائلڈ لینز سے پوچھا "یار تم کیسے مینج کرتے ہو؟"۔ میرا قصہ سُن کر بہت ہنسا۔ پھر بولا "مہدی بھائی بریک لگا کر چلتے تو کوئی ایشو نہیں ہوتا"۔

Check Also

Jamhuriat Ventilator Par

By Muhammad Salahuddin