Yakhudi Labi
یخودی لابی
اکثر یوں ہوتا ہے کہ کبھی کسی شہر ٹیکسی یا رکشے میں سفر کرتے مجھے بہت باتونی و افلاطون قسم کے لوگ ملتے ہیں۔ میں بس سنتا رہتا ہوں۔ نہ ان کو اپنا بتاتا ہوں نہ گیان بانٹنے کا شوقین ہوں۔ مجھے بس ان کو سننا ہوتا ہے کہ اس کی پٹاری میں کونسا ناگ بند ہے وہ تو نکلے۔ کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈرائیور نے مجھے آج معلومات کا ذخیرہ فراہم کیا ہے۔ ہوا یہ کہ میں نے in drive ایپ سے ٹیکسی کال کی۔ مجھے کھانے کے واسطے باہر نکلنا تھا۔ ڈرائیور کی گفتگو ملاحظہ ہو۔
کیا بنے گا ملک کا کچھ سمجھ نہیں آتا۔
میں: ہاں۔ پتا نہیں کیا بنے گا۔
آپ مجھ سے چھوٹا ہے۔ اس ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ معیشت ساری یخودی لابی نے کنٹرول کر لی ہے۔ اب پاکستان کے پاس پیسہ تو ہے نہیں سارا پیسہ یخودی لابی نچوڑ کر لے گئی ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ یخودی لابی پاکستان میں کب داخل ہوئی؟
میں: اچھا، نہیں پتہ۔
آپ کو بتاتا ہوں۔ سنہ 1967 میں ایوب خان کی حکومت میں یخودی لابی داخل ہوئی تھی۔ ایوب خان نے آپ کو پتہ ہے کیا کیا؟
میں: اچھا۔ کیا کیا؟
اس خبیث نے یخودی لابی کے کہنے پر افریقہ سے ایک پودا منگوا کے لگایا۔ یہ جو کراچی میں پھیلا ہوا درخت ہے ناں جو یہاں بہت اگتا ہے۔ (اسی دوران اتفاق سے وہ سڑک کنارے درخت آ گیا) یہ والا درخت۔ یہ ایسا لعنتی درخت ہے کہ قسم خدا کا اس پر چڑیا بھی نہیں بیٹھتا۔ ایوب خان نے یہ افریقہ سے منگوا کے لگایا۔ اس درخت میں مچھر پیدا ہوتا ہے۔ اس درخت میں اتنا مچھر پیدا ہوتا ہے کہ توبہ توبہ۔ سنہ 67 سے قبل مچھر نہیں ہوتا تھا۔ موسمی مچھر ہوتا تھا۔ برسات میں ہوتا تھا بس۔ پھر آپ کو پتہ ہے کیا ہوا؟
میں: نہیں۔
پھر یخودی لابی نے مارٹین کھولا۔ مارٹین کے بعد abott کی کمپنی کھولی۔ دو فیکٹریاں لگائیں۔ ملیریا پھیلا کر خود ہی دوائی دینے لگے۔ مچھر کی وجہ سے مزید بیماریاں پھیلیں۔ پہلے ہارٹ اٹیک سے کوئی مرتا تھا نہ کسی اور وجہ سے۔ اب جسے دیکھو بیمار ہے اور مر جاتا ہے۔ سارا پیسہ یہ فیکٹریاں کمانے لگیں۔ پھر کیا ہوا؟
میں: کیا ہوا؟
پھر ضیاءالحق آیا۔ اچھا ضیا کو چھوڑو۔ مشرپ آیا تو اس نے مچھروں کو بڑھاوا دے دیا۔ ان کو improve کر دیا۔ کبھی مشرف سے پہلے ڈینگی کا نام سنا تھا؟
میں: اچھا۔
بس یخودی لابی پکی ہوتی گئی۔ سارا پیسہ کما گئے اور معیشت کنٹرول کر لی۔ اب ہم ایک ایک ارب کے لیے دوسرے ملکوں سے بھیک مانگتا ہے۔
یہ کہانی سنتے میری منزل آ گئی۔ میں بل دے کر اترنے لگا تو اسے کہا "استاد! یاد آیا۔ آپ کو پتہ ہے کہ یہ ابر، کریم اور ان ڈرائیو ایپ بھی یخودی لابی کی ہے؟ اس نے سن کر پیسے پکڑے۔ بقیہ واپس کرتے بولا "ہوا کرے۔ ہم تو اپنا محنت مزدوری کر کے کماتا ہے۔ ہمیں کیا"۔